انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار میں احتجاج پہ بیٹھے طلباء پر پولیس تشدد اور گرفتاریاں قابل مذمت ہیں۔ بساک

160

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے خضدار یونیورسٹی میں طلبا پہ پولیس کی تشدد اور گرفتاریوں پہ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبا پہ طاقت کا استعمال ایک نئی روش اختیار کرتا جارہا ہے جس کی مذمت کرتے ہیں انتظامیہ کی جانب سے طلبا کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی دکھانے کے بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سہارا لیکر طلبا کو ڈرانے دھمکانے، لاٹھی چارج کرنے سمیت گرفتاریاں کروانا معمول بن چکا ہے۔
بلوچستان میں تعلیمی ادارے مسائل کا گڑھ بن چکے ہیں مالی اور انتظامی مسائل کی وجہ سے تمام بڑے ادارے بندش کا شکار ہوچکے ہیں کبھی طلباء تو کبھی اساتذہ سڑکوں پہ احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر صوبائی حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے ہمیشہ طاقت آزمائی کرتے آرہے ہیں۔

انہوں نے جاری کردہ بیان میں کہا کہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے طلبا انتظامیہ کے آمرانہ رویوں اور دیگر انتظامی مسائل کی حل کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ عید سے قبل یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبات کے حل کرنے کی یقین دھانی پہ احتجاج کو موخر کردیا گیا تھا مگر وہ سب دعوٰے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے۔ اُنہی مطالبات کی حل کے لیے طلبا پچھلے دنوں پھر احتجاج پہ آگئے۔ انتظامیہ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے پرامن طلبا کے احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے متعدد طلبا گرفتار ہوئے جو ابھی تک پابند سلاسل ہیں۔ دوسری جانب احتجاج پہ بیٹھے طلبا کو مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ طلبا کو شامیانے فراہم کرنے والے دُکان تک کو انتظامیہ نے سیل کردیا ہے۔

انہوں نے اپنے بیان کےآخر میں کہا کہ بحیثیت طلبا تنظیم ہم یونیورسٹی طلبا کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں احتجاج کے جمہوری اور آئینی حق کو طاقت کی زور پر چھیننے کی مذمت کرتے ہیں تنظیم گرفتار طلبا کی جلد رہائی اور مطالبات پورا کرنے کی اپیل کرتی ہے۔ بصورت دیگر تنظیم طلبا کے ساتھ اظہار یکجہتی اور انتظامیہ کی آمرانہ رویوں کے خلاف تمام تر آئینی اور جمہوری احتجاج کا حق رکھتی ہے۔