8 جون : بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا دن
ٹی بی پی اداریہ
سنہ دو ہزار کو سردار خیربخش مری کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا آغاز بلوچ لبریشن آرمی کے پلیٹ فارم سے ہوتا ہے۔ بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کی فوجی حکومت جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں جبری گمشدگی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور پاکستان کے انٹیلی جنس ایجنسیز آزادی کی تحریک سے وابستہ اداروں کے کارکنان کو جبری گمشدہ کرنا شروع کردیتے ہیں، جس کی ابتداء نورا مری کی جبری گمشدگی سے ہوتی ہے۔
فوجی ڈیکٹیٹر جنرل مشرف کے فوجی حاکمیت کے خاتمے کے بعد توقع کی جارہی تھی کے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں کمی آئے گی لیکن دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا، اپریل دو ہزار نو کو تربت سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین، غلام محمد بلوچ سمیت شیر محمد اور لالا منیر کو بلوچستان اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر کچکول ایڈوکیٹ کے چیمبر سے جبری گمشدہ کیا گیا، جس کے کچھ دن بعد اُن کی لاشیں تربت سے چند کلومیٹر دور، مرگاپ سے مسخ شدہ حالت میں ملتی ہیں۔
بی این ایم چیئرمین کی جبری گمشدگی اور حراستی قتل کے بعد بلوچ سیاسی رہنماؤں ؤ کارکنان سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی وسیع پیمانے پر جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے، جو آج تک جاری ہے۔ 8 جون دو ہزار نو کو بی ایس او کے وائس چیئرمین زاکر مجید کو مستونگ سے جبری گمشدہ کیا گیا اور 28 جون کو بی این ایم کے سنٹرل کمیٹی ممبر ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو ان کے ہسپتال سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ بی ایس او کے سابق وائس چیئرمین سنگت ثناء اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری جلیل ریکی کو جبری گمشدگی کے بعد قتل کرکے لاشیں ویرانے میں پھینک دیے گئے۔
جبری گمشدگی کے بعد قتل ہونے والے جلیل ریکی کے والد اور پندرہ سال سے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد کے روح رواں ماما قدیر بلوچ کے مطابق بلوچستان سے ہزاروں افراد پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدہ ہیں اور دو ہزار سے زیادہ جبری گمشدہ افراد کو قتل کرکے لاشیں ویرانوں اور جنگلوں میں پھینکے جاچکے ہیں اور اب تسلسل سے جبری گمشدہ افراد جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جارہے ہیں۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور بلوچ سماج کا ہر طبقہ متاثر ہے۔ ہزاروں خاندان جبری گمشدگیوں سے معاشی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کے شکار ہیں اور بلوچ مائیں بہنیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاجی دھرنوں اور پریس کلبوں میں احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں جہاں پہلے سے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاج جاری ہے، وہیں روز افزوں جبری گمشدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
بی ایس او آزاد نے دو ہزار سولہ میں آٹھ جون کو جبری گمشدہ افراد سے منسلک کیا تھا اور اس دن کو بلوچستان بھر میں جبری گمشدہ افراد کے خاندان اور انسانی حقوق کے ادارے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور برسراقتدار جماعتوں اور پاکستان فوج سے اپنے پیاروں کے بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
حکومتی دعوؤں، عدالتی کمیشنوں کے احکامات اور انسانی حقوق کے اداروں کی سفارشات کے باجود بلوچستان میں جبری گمشدگی میں روک تھام کے بجائے روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، جو انسانی حقوق و جمہوری اقدار کی سخت خلاف ورزی ہے، ان واقعات کی روک تھام بے حد ضروری ہے بصورت دیگر یہاں ایک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔