کاش ۔ حکیم واڈیلہ بلوچ

848

کاش 

تحریر: حکیم واڈیلہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کاش ایسا ہوتا کہ ہم ایک آزاد ریاست کے مالک ہوتے، کاش ایسا ہوتا کہ ہماری سرزمین کی فضائیں آزاد ہوتیں، کاش یہاں پرندوں کی چہچہاہٹ آزاد ہوتی، کاش ہمارے پہاڑ ؤ کوہ دمن آزاد ہوتے، کاش یہاں بہتا ہر ایک چشمہ اپنی مرضی سے روانی کرتا، کاش یہاں پیدا ہونے والا ہر ایک بچہ بغیر کسی ڈر و خوف کے آزاد فضا میں سانس لے سکتا، کاش یہاں طالب علم آزادی سے اسکول، کالج اور یونیورسٹیز تک کا سفر طے کرسکتے۔ کاش یہاں تعلیمی آزدی، طبی آزادی، صنعتی آزادی، صحافتی آزادی، سیاسی آزادی، برابری، انسانیت اور بنیادی انسانی حقوق کے دفاع کی آزادی ہوتی۔ لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں یہاں لفظ آزادی کو بھی قیدی بنادیا گیا ہے۔ آزادی کو پکارنے والے، چاہنے والے، آزادی کی راہ تکنے والوں اور آزادی پر بھروسہ کرنے والی آوازوں کو بزور طاقت بزور شمشیر اور بندوق کی نوک پر دبایا جارہا ہے۔

لوگوں کو دبانے اور آزادی کو سلب رکھنے کی تاریخ کافی طویل ہے اس کی مثالیں انسانی زندگی کی ارتقائی دنوں میں نظر آتی ہیں۔ جہاں طاقتور ہمیشہ کمزور پر حملہ آور ہوکر یا سازش کرکے کمزور اور محکوم شخص، گروہ یا قوم کی آزادی اور آواز کو چھیننے کی کوشش میں مگن نظر آتے ہیں۔ جدید دنیا نے اپنی موجودہ شکل اختیار کرنے کے عمل کے دوران لاتعداد انسانوں کا خون بہایا ہے۔ جہاں بے پناہ لوگ عالمی جنگوں کا شکار ہوئے ہیں۔ تو وہیں بے پناہ قوم اور نسلیں کالونیلزم کا شکار ہوکر موت کے آغوش میں سلادی گئیں۔

اس آواز کو دبانے کی اور آزادیوں کو سلب کرنے کیخلاف جنہوں نے آواز اٹھائی، جنہوں نے مقابلہ کیا، جنہوں نے حالات کی سختی اور دشمن کے طاقتور ہونے جیسے سطحی اور فرسودہ مباحثات میں وقت ضیاع نہیں کیا، جنہوں نے بہترین حکمت عملیاں اپناتے ہوئے سخت اور سنگین فیصلے کیے وہی اقوام، گروہ اور لوگ اپنی آواز اپنی آزادی اپنی روشن و بہتر مستقبل کے حصول میں کامیاب ہوئے۔

بلوچستان گزشتہ سات دہائیوں سے ایک مسلسل غلامی کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ جہاں انیس سو اڑتالیس کو پاکستان نے بلوچستان پر بزور شمشیر قبضہ کرکے انہیں کہا کہ اب وہ فیصلے خود نہیں کرسکتے۔ پھر جب انہوں نے جدوجہد شروع کی تو انہیں کہا گیا کہ وہ اسلامی اقدار و مزہبی رواداری کے تحت ایک مسلمان برادر قوم پر حملہ آور نہیں ہوسکتے۔ پھر چاہے وہ قوم بلوچوں کی نسل کشی میں ہی مصروف عمل کیوں نہ ہو۔ بلوچوں نے تاریخی طور پر ہمیشہ سے ہی سخت حالات، مشکلات، طاقتور اور جابر قابض کا مقابلہ دیدہ دلیری سے کیا ہے۔

پاکستانی قبضہ گیریت کیخلاف بھی بلوچوں کی جدوجہد شروع دن سے ہی جاری رہی ہے۔ مختلف روپ و شکل میں جاری رہنے والی جدوجہد آج ایک مکمل قومی جنگ کا شکل اختیار کرچکی ہے جس میں بلوچ قوم کے نوجوان فرزندان کے ہمراہ بلوچ قوم کی دختران بھی دشمن کیخلاف برسرپیکار ہیں۔

جس کی ایک تازہ مثال بلوچ لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ سے تعلق رکھنے والی سمعیہ قلندرانی کی ہے۔ جنہوں نے پاکستانی سیکورٹی فورسز کے وی آئی پی کاروان پر چوبیس جون دوہزار تئیس کو ایک خودکش حملہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہوئے بلوچ قومی تحریک کا ایک قابل فخر حوالہ بن گئیں۔ فدائی سمیہ قلندرانی کی عمر پچیس سال تھی، وہ بلوچوں کے قلندرانی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں اور انکا خاندان ریاستی غضب کا شکار تھا، وہ بلوچ لبریشن کے سابقہ سربراہ شہید جنرل اسلم بلوچ کی ہونے والی بہو، اور دالبندین میں چینی انجینئرز پر فدائی حملہ کرنے والے شہید ریحان اسلم کی منگیتر تھیں۔

سمعیہ قلندرانی کیوں فدائی حملے کو ہی وہ واحد حل اور راستہ سمجھتی تھی؟ جو جدوجہد کا راستہ ہے، جو دشمن کو نقصان پہنچانے کا راستہ ہے، جو جنگ کو اگلی مرحلے میں داخل کا راستہ ہے، جو دشمن کو بلوچ سرزمین سے بیدخل کرنے اور بلوچستان کی آزادی کو یقینی بنانے کا راستہ ہے۔ انکے بقول “یہ قربانی کچھ بھی نہیں ہمیں اس سے بھی زیادہ قربانیاں دینے ہونگی۔” وہ اپنی زندگی کو ختم کرکے بھی یہ کہہ رہی ہیں اس سے بھی زیادہ قربانیاں دینی ہونگی اس سے بھی انتہائی اقدام کرنا ہونگی۔ اس سے یقیناً یہ حقیقت بیان ہوتی ہے کہ آج بلوچ خواتین انتہائی شعور اور دیدہ دلیری کے ساتھ بلوچ قومی جنگ میں ایک ایسا کردار کررہی ہیں جسے جھٹلانا ناممکن ہے۔ آج جہاں لمہ یاسمین شہید ریحان کو بلوچستان کا بیرک پہناکر شہادت کے لئے رخصت کرتی ہیں۔ تو وہیں شاری اپنے دو لخت جگروں، اپنی جوانی، اپنی آسودہ زندگی کو خدا حافظ کہہ کر اپنی زندگی مقصد کے حصول کے خاطر ختم کردیتی ہیں (اور ایک نیا باب بلوچ قوم کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ میں رقم کر جاتی ہیں)۔ سمیہ قلندرانی نے بھی آج اس حقیقت کو اپنے عمل سے بیان کیا ہے کہ جہاں ریحان وطن کی عشق میں گرفتار تھا تو انکی منگیتر بھی اسی وطن دھن میں مدھوش تھیں، اور اپنا آخری حوالہ بھی سرزمین کے نام کرگئیں۔

بلوچ معاشرہ چونکہ اس وقت ایک سنگین سیاسی ؤ سماجی بدلاؤ کی حالت سے گزر رہا ہے جہاں بلوچوں کو اپنی قومی آواز دبتی اور قومی آزادی سلب نظر آتی ہیں۔ اسی لئے وہ ہرایک ممکن طریقہ ہائے کار استعمال کرکے اپنی آزادی اور آواز کو حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ بلوچستان کے حالات میں ایسا ہونا ممکن ہی نہیں کہ وہاں مغربی سماجی اقدار کو لاگو کیا جاسکے، موجودہ حالات میں یہ ممکن ہی نہیں کہ بلوچستان میں فیمنزم کو جنگ سے اور خواتین کو جدوجہد سے جدا کرکے انہیں ایسے مسائل کے پیچھے لگایا جاسکے جو حقیقی قومی سے مسئلہ سے انہیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دور رکھنے کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہوں۔

یقینی طور پر کوئی بھی ذی شعور شخص زندگی کو موت پر فوقیت دیکر ایک بہتر اور خوشحال زندگی گزارنے سمیت آزاد طور پر رہنا پسند کریگا۔ لیکن یہ تمام آسائشات، آزادی، ترقی، امن، خوشحالی فلاح ؤ بہبود، اور دنیا سے مقابلہ کرنے کا سفر قومی آزادی اور قومی آواز کی بحالی کے بعد ہی ممکن ہے۔ کاش آج بلوچستان میں خونریزی نہ ہوتی، کاش آج بلوچستان غلام نہ ہوتا، کاش آج سینکڑوں بلوچ نوجوان، بزرگ، مائیں، بیٹیاں بہنیں لاپتہ نہ ہوتیں، کاش آج بلوچ مائیں در پدر کی ٹھوکریں نہ کھارہی ہوتی۔ لیکن بدبختی سے یہ کاش ہماری خواہشات کا اظہار تو ہوسکتا ہے لیکن حقائق نہیں بدل سکتی۔ موجودہ ظلم و جبر کی رات کو ختم کرنے اپنے آنے والی کل کو ایک بہتر مستقبل میں بدلنے کا راستہ جدوجہد کا ہے۔ جدوجہد جو قومی بیداری کی خاطر ہو، جدوجہد جس کا حوالہ قومی آزادی اور قومی سوال ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں