ڈاکٹر دین محمد کے جبری گمشدگی کے چودہ سال
ٹی بی پی اداریہ
ڈاکٹر دین محمد بلوچ ایک سیاسی کارکن تھے، غیر پارلیمانی اور آزادی پسند سیاست کی احیا میں چئرمین غلام محمد کے ساتھی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے سنٹرل کمیٹی کے ممبر تھے اور بلوچ قومی حقوق کی جدوجہد سے وابستہ تھے۔ پاکستان کے فوجی اداروں نے مشرف کی فوجی آمریت سے آج کے جمہوری ادوار تک بلوچ قومی حقوق کی تحریک سے وابستہ ہزاروں کارکنوں کو جبری گمشدہ کیا، جو کئی سالوں سے فوجی اداروں کی تحویل میں ہیں، اُن میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ بھی شامل ہیں جنہیں اٹھائیس جون دو ہزار نو کی رات خضدار کے علاقے اور ناچ میں اسپتال سے دوران ڈیوٹی جبری گمشدہ کیا گیا۔
ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو چودہ سال مکمل ہوچکے ہیں اور اُن کی بیٹیاں اپنی والد کی بازیابی کے لئے چودہ سال سے پاکستان کے پارلیمنٹ، عدلیہ، سیاسی اور انسانی حقوق کے اداروں کے در کھٹکھٹا رہے ہیں۔ سمی دین محمد نے ماما قدیر اور فرزانہ مجید کے ساتھ کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرچکے ہیں۔ کراچی ، کوئٹہ اور اسلام آباد میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت ہزاروں جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے دھرنا دے چکے ہیں۔ ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اپنے والد کی بازیابی کے لئے مہلب اور سمی دین محمد کی جدوجہد جاری ہے۔
پہلے بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیاں بلوچستان اور کراچی تک محدود تھے، لیکن اب خلیجی ممالک سے سیاسی کارکنان کو پاکستان کے حوالے کیا جارہا ہے۔ راشد بلوچ کو متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے حوالے کیا تھا لیکں پانچ سال گزرنے کے باجود انہیں عدالتوں میں پیش کرکے منصفانہ ٹرائل کا حق نہیں دیا جارہا ہے۔ راشد بلوچ کی والدہ پانچ سال سے اُن کی بازیابی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں لیکن تاحال متحدہ عرب امارات اور پاکستان راشد بلوچ کے حوالے سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں سمی اور مہلب جیسے سینکڑوں بچوں کا بچپن پریس کلبوں اور سڑکوں پر احتجاج میں گزر چکا ہے، بلوچ انسرجنسی کے دوران ایک پوری نسل جبری گمشدگیوں کی نظر ہوچکی ہے لیکن پاکستان کے مقتدر ادارے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا تسلسل شدت سے جاری ہے۔
ہر سال کی طرح دنیا بھرکےمسلمان عید کی خوشیوں کی تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن بلوچستان میں جبری گمشدہ افراد کے خاندان عید کے دن اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کی تیاری کررہی ہیں۔
مہلب، سمی، سائرہ، راشد اور زاکر کی والدہ اور جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں کا عید کراچی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج میں گزر جائے گا۔ پاکستان کے سیاسی پارٹیوں و انسانی حقوق کے اداروں اور پاکستان کو جوابدہ کرنے والے اقوام عالم کے اداروں کی جبری گمشدگیوں پر خاموشی سے بلوچستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔