پیاری پوُپل – ناظر نور

287

پیاری پوُپل

تحریر: ناظر نور

دی بلوچستان پوسٹ

پیاری پوپل!
ان حالات میں آپ سے نہیں پوچھ سکتا کہ آپ کیسی ہو؟ کیونکہ جب کوئی بچی باپ کے سائے سے محروم ہوجائے تو وہ اپنی زندگی کیسے گزارتی ہے اس بات کا ہمیں ادراک ہے کیوں کہ ہم نے اپنی سیاسی زندگی میں ایسے بچے، بچیاں دیکھے ہیں جنہوں نے اپنا بچپن اور نوجوانی یتیمی کے سائے میں گزاری ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہو کہ بچیاں اپنے بابا سے زیادہ گھل مل جاتے ہیں اور آپ بھی نہ صرف اپنے بابا کے لاڈلی تھی بلکہ آپ نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہمیشہ اپنے ابا کے دوستوں کے بزم میں ان کے اور ان کے دوستوں کے ساتھ مہر و محبت کا ہمیشہ ثبوت دیا جو ایک بیٹی ہمیشہ کرتی آئی ہے۔

پیاری پوپل!
میں نہیں جانتا کہ ایک ملک جہاں پر کوئی اور قوم حکومت کررہی ہو وہاں انسانوں کی زندگی کیسے گزرتی ہے، خاص کر ان عورتوں کی جو اپنے شوہروں کے سائے سے محروم کی جاچکی ہیں, ان بچوں اور بچیوں کی زندگی جو کم سنی میں یتیم کی جاتی ہے۔ ایسے لوگ خوش قسمت ہیں یا بدقسمت جو ایسے ذہنی و جسمانی جبر کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ ہمہ وقت ان کا سامنا کررہے ہوتے ہیں لیکن وطن کی محبت میں دربدر کی زندگی گزارنے والوں اور اور زمین کے لئے جان سے گزرنے والے افراد کی بچیاں خوش قسمت ثابت ہوتی ہیں جو اپنے بابا کی شہادت کے بعد ان کے نقش قدم کو اپنا لیتی ہیں اور ان کے نظریہ کو اپنا کر ان کے مشن کو منزل پہ پہنچانے کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں۔

پیاری پوپل !
میں جانتا ہوں کہ آپ کے خاندان کی وطن سے محبت کی مثال لازوال ہے جو قربانی آپ کے بابا نے دی ہے وہ ہماری اور آپ کی رہنمائی کرتا رہے گا اور ہم سب کو مضبوط بنائے گا۔

میں جانتا ہوں کہ آپکی آنکھوں میں ایک درد ہے جو ایک درد مند انسان کو نظر آتا ہے لیکن وہ درد مند انسان ان آنکھوں کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ یہ صرف تمہاری آنکھیں نہیں بلکہ ان بچیوں کی آنکھیں ہیں، جو کم سنی میں قیامت کا منظر دیکھ چکی ہیں۔ مجھ جیسے کمزور لوگ بس اپنی لڑکھڑاتی زبان سے اپنے آنسووں کو چھپانے کی ناکام کوشش کرسکتے ہیں۔

جانتی ہو کہ انتہائی رنج اور تکلیف ہوئی جب آپ سمیت جئیند، دوستین,روہیل,بابر اور آپکی ماں کے بارے میں سوچتا رہا کہ مستقبل میں آپ لوگوں سے رابطہ ہوپائے گا یا نہیں؟ ہمیں آگے آپ کی دکھ و تکلیف اور خوشیوں میں شامل ہونے کا موقع ملے گا یا نہیں۔

پوپل جان!
جانتی ہو جس طرح یہ لمحات آپ پر گراں گزررہے ہیں ایسا ہی جئیند اور دوستین کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے مجھے پتہ ہے کہ جئیند اور دوستین ہم سے زیادہ بہادر,باہمت اور مضبوط ہیں جو کھٹن اور مشکل لمحات کو گزار کر اپنے بابا کی ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھائیں گے اور آپ انکے لئے حوصلوں کا باعث بنیں گی۔دوستین اور باقی چھوٹے بچے جن کی عمر نہیں کہ وہ ان ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائیں لیکن کیا کریں زندگی ایسے ہی امتحانات کا نام ہے اور مجھے یقین ہے کہ زندگی کے اس امتحان میں کامیابی آپ کی ہوگی۔

پوپل !
میں نے آپکے والد کو قریب سے دیکھا کیونکہ دس سال کی طویل جدوجہد جہاں آزاد بلوچستان ان کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ ایک طرف جدوجہد آزادی کے تکالیف اور مشکلات اور دوسری طرف اپنے بچوں کی معاشی کفالت کی ذمہ داری انہوں نے نہایت جانفشانی اور محنت سے ادا کیا۔ میں آپ کو بتادو؟ کہ ایسے ہی کردار تحریکوں کو جلا بخشتے ہیں اور قوموں میں نئی روح پھونکتے ہیں۔۔۔پتہ ہے تمہارے بابا شہید نواز رند جیسے کردار تاریخ میں کن القابات سے یاد کیے جاتے ہیں۔۔۔امر۔۔۔شہید۔۔۔حقیقی مورخ جو اپنے لہو سے ایک عہد کی تاریخ لکھتے ہیں۔۔۔ہاں یاد آیا۔۔۔انہیں ایک عہد کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
ایسے ہی امر کردار ہمارے قومی ہیرو ہیں۔

اب گفتگو طویل ہوتی جارہی ہے میں اب آپ سے اجازت چاہوں گا اور آپ سے اتنا کہوں گا کہ آپ کے والد ایک عام فرد نہیں بلکہ لیجنڈ بن چکا ہے جو ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا اور آپ ان کے نقش قدم اور ان کے افکار کو اپنا کر ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔
خدا ہمیشہ آپ سب کو سلامت رکھیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں