امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن چین کے دورے پر اتوار کو بیجنگ پہنچ گئے۔ کسی اعلیٰ ترین امریکی عہدے دار کا پانچ سال میں چین کا یہ پہلا دورہ ہے۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حریف عالمی طاقتیں امریکہ اور چین کشیدگی میں اضافے کے بعد سفارتی درجہ حرارت کو کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بلنکن کے دو روزہ دورے کے دوران کسی بھی فریق کو پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔
دنیا کی ان دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارت اور ٹیکنالوجی سے لے کر علاقائی سلامتی تک کئی معاملات پر اختلافات ہیں۔
تاہم دونوں ممالک نے زیادہ سے زیادہ استحکام میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگلے سال امریکہ اور تائیوان دونوں ملکوں میں انتخابات کے پیش نظر اس مقصد کے حصول کے مواقعے محدود ہیں۔
تائیوان خود مختار جمہوری ملک ہے جس پر بیجنگ نے طاقت کے ذریعے قبضہ کرنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔
تعلقات میں بہتری کی کوشش میں اینٹنی بلنکن نے چار ماہ قبل چین کا دورہ کرنا تھا جو امریکی صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان نومبر میں بالی میں ہونے والی خوشگوار سربراہی ملاقات کا نتیجہ تھا۔
لیکن اینٹنی بلنکن نے یہ دورہ اچانک اس وقت ملتوی کر دیا جب امریکہ نے کہا تھا کہ اس نے امریکی فضا میں چینی جاسوس غبارے کا پتہ لگایا ہے۔
نتیجے کے طور پر واشنگٹن میں موجود سخت گیر افراد نے چین کو جواب دینے کے مطالبات شروع کر دیے۔
اپنی روانگی سے قبل امریکی دارالحکومت میں بات کرتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ وہ ممالک کے درمیان ’غلط فہمیوں‘ سے بچنے کے طریقے تلاش کر کے ’ذمہ داری سے چین کے ساتھ تعلقات کو سنبھالنے‘ کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’شدید مسابقت میں مستقل سفارت کاری کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مقابلہ محاذ آرائی یا لڑائی کی طرف نہ جائے۔‘
جس وقت بلنکن یہ بات چیت کر رہے تھے ان کے ساتھ سنگاپور کے وزیر خارجہ ویوین بالاکرشنن بھی موجود تھے، جنہوں نے کہا: ’خطہ چاہتا ہے کہ امریکہ ایک طاقت کے طور پر قائم رہے اور ابھرتے ہوئے چین کے ساتھ مل کر رہنے کے طریقے تلاش کیے جائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بلنکن کا دورہ ’ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔
’نقطہ نظر اور اقدار میں بنیادی اختلافات پائے جاتے ہیں اور باہمی احترام اور سٹریٹجک اعتماد کی فضا قائم ہونے میں وقت لگے گا۔‘
اتحادیوں کو قریب رکھنے پر بائیڈن انتظامیہ کی توجہ کے حصے کے طور پر بلنکن نے اپنے 20 گھنٹے کے بحرالکاہل کے سفر کے دوران جاپان اور جنوبی کوریا کے اپنے ہم منصبوں سے ٹیلی فون پر بات کی۔
جبکہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے جاپان، جنوبی کوریا اور فلپائنی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے لیے الگ سے ٹوکیو کا دورہ کیا۔