ارتقاء – بیورگ بلوچ

172

ارتقاء

تحریر: بیورگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قدرت کا ایک اصول ازل سے اس دنیا میں رائج ہے جس میں طاقتور ، کمزور کو کچل جاتا ہے یا نگل جاتا ہے۔ اس آفاقی حقیقت کے پیش نظر مختلف جاندار بشمول انسان ایک ارتقائی مراحل سے گزر کر ظاہری و باطنی ایسے خصوصیات پیدا کر لیتے ہیں جو اس قدرتی اصول میں انہیں اپنی بچاؤ کرنے کے لیے ایک ڈھال فراہم کرتا ہے۔ مثلاً گلاب اپنے پھول کو بچانے کے لیے ایک ارتقائی عمل سے گزرا جس کے نتیجے میں گلاب کے پودے پر کانٹے پیدا ہوئے جو اس کی بچاؤ کا سامان کرتی ہیں . اسی طرح گرگٹ ارتقائی عمل سے گزر کر اپنے اندر رنگ بدلنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے جو اس کو ماحول میں گھل مل جانے اور شکاریوں سے بچنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

شہد کی مکھیوں میں زہر سے لیس ڈنک ہوتے ہیں، جنہیں وہ دفاعی طریقہ کار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ جب شہد کی مکھی کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہ حملہ آور کو ڈنک مار سکتی ہے جو ایک روک تھام کا کام کرتی ہے اور شہد کی مکھی اور اس کی کالونی کی حفاظت کرتی ہے۔

اسی طرح حضرت انسان نے انفرادی طور پر معاشرتی طور پر اور قومی طور پر اپنی دفاع کے لیئے ارتقا سے گزر کر اپنے حفاظت کے لیے کپڑے بنائے ، ہتھیار بنائے ، تہذیب ، ثقافت، سماج اور قوم بنائی ۔ بطور قوم بھی انسان ارتقائی عمل سے گزرا جس کے تحت قبیلے بنے اور قبیلے سے قوم بنے اور قوم سے عالمی قوت بن کر ابھرے تاکہ وہ کمزور بنکر نہ رہیں تاکہ کوئی اور طاقت ور ان پر حملہ اور ہوکر انکو نیست و نابود نہ کرسکے ۔

بلوچ قوم بھی اس ارتقائی عمل سے گزر کر آج دنیا میں بطور قوم اپنا لوہا منوا چکا ہے اور تادم تحریر اپنی بقا کے لیے مختلف ارتقا سے گزر کر مختلف صلاحیت پیدا کرکے اپنی رکھوالی و حفاظت میں مصروف ہے۔ انگریز سامراج کے آنے سے پہلے تک بلوچ قوم ، ایک قوم ہونے کی شرائط پر پورا اترنے کے باوجود قبائلی ارتقائی شکل تک منجمند رہا لیکن جب انگریز نووارد ہوئے تو بلوچ، قبائل سے قوم کی طرف ارتقائی عمل سے گزرنا شروع ہوا اور کالے انگریزوں کے آتے آتے آج بلوچ قوم واقعتا ایک قوم کی شکل میں ڈلتا جارہا ہے جس میں اب بھی کئی کمزوریاں باقی ہیں جن پر ارتقائی عمل جاری ہے۔

پاکستانی پچھتر سالہ قبضہ گیریت میں بلوچ قوم اپنی قومیت اور دفاع کے لیے مختلف صلاحیت پیدا کرنے کے عمل میں تیزی سے گزر رہا ہے۔

گزرے کل میں بلوچ قوم کی دفاع چند قبیلہ تک محدود تھی یا چند جگہوں تک محدود رہی اور ہر نئی دفاعی کوشش میں بلوچ قوم کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا رہا اور عوامی شمولیت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

موجودہ تحریک جب شروع ہوئی تو بلوچ قوم کی دفاعی صلاحیت محدود تھی جس میں دور سے ہی دشمن پر گوریلا تیکنیک استعمال کیئے جاتے رہے جو دنیا بھر میں low insurgency کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن بلوچ قوم کا ارتقا جاری رہا اور آج کے تاریخ میں بلوچ ، مہلک ترین صلاحیت پیدا کرچکا ہے جس کو حرف عام میں فدائی یا جند ندری کہا جاتا ہے ۔ اس کی ترقی یافتہ ترین شکل شاری اور سمیعہ بلوچ جیسے وہ شیر زال ہیں جو قومی بقا کی خاطر خود فنا ہونے کے عظیم ترین مقصد پر عمل پیرا ہیں ۔ یہ عمل کوئی راتوں رات پیدا شدہ عمل نہیں بلکہ اس ارتقا کا حصہ ہے جو بلوچ تاریخ دفاعی کوشش میں پروان چڑھتا آرہا ہے اور آنے والے کل میں یہ مزید ترقی یافتہ شکل میں ڈلتا رہے گا اور قوم کی حفاظتی میکنزم مزید مربوطی سے مستحکم ہوتا رہے گا۔

ارتقائی عمل کے ساتھ ساتھ کچھ رد ارتقائی عناصر بھی جنم لیتے ہیں جو جب کسی خاص status quo سے مطمئن ہوجاتے ہیں تو اس کے بدلنے سے ڈرتے ہیں اور ہر نئی ارتقائی شکل کو رد کرنے کی جتن کرتے ہیں ۔ بلوچ قومی تحریک میں جابجا ایسے عنصر ضرور نظر آئیں گے جو ارتقائی عمل کو ہضم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے اور رد ارتقا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ ارتقاء ایک قدرتی عمل ہے جس سے منہ موڑا نہیں جاسکتا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں