محنت کش کی کم سے کم اجرت 50 ہزار روپے مقرر کی جائے۔ لیبر فیڈریشن

239

آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے رہنماﺅں نے کہا کہ محنت کش کی کم سے کم اجرت 50ہزار روپے مقرر کی جائے، بلوچستان یونیورسٹی کیلئے 2ارب روپے اور مرکزی حکومت 3ارب روپے کا بیل آوٹ پیکج جاری کرے اور آنے والے سالانہ بجٹ میں صوبائی حکومت کم از کم 10 ارب روپے اور مرکزی حکومت ملک بھر کی جامعات کیلئے 500 ارب روپے مختص کرے، مائننگ صنعت میں آئے روز حادثات کی وجہ سے سالانہ 300 ورکرز جاں بحق ہوتے ہیں، لہذا حادثات کی روک تھام کی جائے اور تمام کنٹریکٹ ،ڈیلی ویجز ملازمین کو ریگولر کیا جائے، ٹیکنیکل اسٹاف کو کلریکل اسٹاف کی طرح اپ گریڈ کیا جائے۔

یہ بات آل پاکستان لیبر فیڈریشن اور پاکستان سنٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے زیر اہتمام یکم مئی کی مناسبت سے کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس سے فیڈریشن بلوچستان کے صدر سلطان محمد خان ،سیکرٹری جنرل عبدالستار، صوبائی چیئرمین شاہ علی بگٹی، انفارمیشن سیکرٹری منظور بلوچ اوردیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

مقررین نے کہا کہ اسوقت دنیا میں مزدور ،محنت کش انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ دنیا میں دو نظام چل رہے ہیں مترقی نظام اورسرمایہ دارانہ نظام بدقسمتی سے اب دنیا میں صرف ایک نظام نافذ العمل ہے اور وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو پوری دنیا کو آئی ایم ایف کے ذریعے چلارہے ہیں کیونکہ پوری دنیا کو آئی ایم ایف کا مقروض بنادیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے جو ملک بھی قرض لیتا ہے وہ قیمتیں بڑھانے کی شرط رکھتا ہے جس سے بجلی ،گیس ، پٹرول ،اشیائے خوردنی وغیرہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کردیتے ہیں جو ممالک قیمتیں نہیں بڑھاتے ہیں ان ملکوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی واضح مثال پاکستان ہے اسکے علاوہ ملک میں مستقل ملازمتیں ختم کی جارہی ہیں اورمزید ملازمتوں کا سلسلہ بھی کم ہوتا جارہا ے جس کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری کا طوفان آچکا ہے اس لئے کہدنیا میں مترکی نظام کا خاتمہ ہوا اب صرف سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کا مالک آئی ایم ایف ہے دوسری جانب طبقاتی جاگیرداری اورسرمایہ دارانہ نظام محنت کشوں کا استحصال کروا رہا ہے ہمارے معاشرے میں محنت کش کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا اوراسکے ساتھ شروع دن سے ہی امتیازی سلوک ہورہا ہے مزدور طبقے کی انتھک محنت کی بدولت ہی ملکی صنعتیں کارخانے چلتے ہیں محنت کش طبقے کی وجہ سے ہی سرمایہ دارصنعت کار اور اسکے بچے خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ مزدور ہی ہیں جن کی شب و روز محنت سے ملک میں خوشحالی آتی ہے لہذا ہمارا نعرہ ہے کہ دنیا کے محنت کشوں ایک ہوجاو۔

پروگرام میں 19قرار داد متفقہ طور پر منظورکی گئیں جن میں کہا گیا ہے کہ محنت کش کی کم سے کم اجرت 50ہزار روپے مقرر کی جائے، بلوچستان یونیورسٹی کیلئے 2ارب روپے اور مرکزی حکومت 3ارب روپے کا بیل آوٹ پیکج جاری کرے اور آنے والے سالانہ بجٹ میں صوبائی حکومت کم از کم10ارب روپے اور مرکزی حکومت ملک بھر کی جامعات کیلئے 500ارب روپٰے مختص کرے ،مائننگ صنعت میں آئے روز حادثات کی وجہ سے سالانہ 300ورکرز جاں بحق ہوتے ہیں لہذا حادثات کی روک تھام کی جائے اور تمام کنٹریکٹ ،ڈیلی ویجز ملازمین کو ریگولر کیا جائے ۔ ٹیکنیکل سٹاف کو کلریکل اسٹاف کی طرح اپ گریڈ کیا جائے،حب انڈسٹریل زون اور صوبے میں بند کارخانے فی الفور چلائے جائیں اور بوستان و خضدار جوکہ انڈسٹریل زون ڈیکلیئر ہوچکے ہیں ان میں فی الفور صنعتیں لگائی جائیں،آئی ایل اف کنونشن 176 مائنز سیفٹی کو Ratify کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کیا جائے ، تمام ملازمین کو سیکرٹریٹ ملازمین کی طرز پریکساں مراعات دی جائیں،مائنز محنت کشوں کو سہولیات دیتے ہوئے ڈیتھ گرانٹ ،اسکالرشپ،میرج گرانٹ کی ادائیگی فوری کی جائے اور انہیں ای او بی آئی میں سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ کیا جائے ، ریٹائرڈ اور فوت شدہ سرکاری ملازمین کے لواحقین کی تعیناتی میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے،اسٹیٹ لائف کارپوریشن کی نجکاری منسوخ کی جائے اور بلوچستان کے مختص کردہ کوٹے کے مطابق تعیناتیاں کی جائیں ، ورکرز ویلفیئر فنڈ ،سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی کا دائرہ کار تمام مائنز مزدوروں تک بڑھایا جائے،آئین کے تحت تمام وفاقی محکموںمیں بلوچستان کا کوٹہ کے مطابق ملازمتوں کا کوٹہ دیا جائے ،کیسکو ملازمین کو جاب سیکورٹی اورورکروں کو تحفظ دیا جائے ،ای او بی آئی پنشن کم از کم 20000روپے کی جائے ، تمام ملازمین کو مذہبی تہواروں پر اضافی تنخواہ دی جائے ،بلوچستان میں حالیہ 62یونینوں پر پابندی ختم کی جائے ،سی پیک میں بلوچستان کے محنت کشوں کو ترجیح دیتے ہوئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں ، اسوقت ملک میں بے تحاشہ مہنگائی ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری میں بھیچ اضافہ ہوا ہے اسے کنٹرول کیا جائے۔