تربت یونیورسٹی میں فوج کا کردار ۔ ماہ روش بلوچ

791

تربت یونیورسٹی میں فوج کا کردار  
تحرير: ماہ روش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ دان کہتے ہیں کہ فرانس کی نوآبادیاتی نظام تعلیم نے شام, لبنان, مراکش, تیونس اور الجزائر کی ثقافت سے لے کر مذہب تک کو متاثر کیا ہے اور برطانیہ نے نوآبادیاتی تعلیم کے ذریعے اپنے کالونیوں کے اندر ایک نیا ہائبرڈ ثقافت قائم کیا۔ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ نوآبادیاتی نظام تعلیم مظلوم اقوام کو کس پیمانے پر نقصان دے سکتا ہے۔

قومی تحریکوں کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ قابض کی نئی پالیسیاں ہیں کیونکہ نوآبادیاتی تعلیم نوجوانوں کی زرخیز سوچ کو متاثر کرکے اُن کے سوچنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتا ہے ۔جو پالیسیاں برطانیہ اور فرانس نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں نافذ کئے وہی پالیسیاں ریاست پاکستان، بلوچستان میں نافذ کررہا ہے ۔

ہم اسی تناظر میں تربت یونیورسٹی کو دیکھتے ہیں جہاں ہمیں انتظامیہ سے زیادہ فوج کا کردار نظر آتا ہے ۔ تربت یونیورسٹی میں سکالر اور دانشوروں نے اتنے پروگرام منعقد نہیں کئے ہونگے جتنے فوجی افسران نے دورے کئے ہیں۔

بلوچستان میں پاکستان فوج نے نوجوانوں کی بلوچ قومی تحریک سے دور رکھنے کے لئے کئی منصوبے تشکیل دیے ہیں، مختلف ( وائس آف بلوچستان اور یوبین ) ادارے بنائے گئے ہیں جو بلوچ قوم اور قومی مسئلہ کو پس پشت ڈالنے کے لئے نوجوانوں کے لئے کئی طرز کے پروگرام منعقد کرتے ہیں اور انہیں فوج کی سرپرستی حاصل ہے، انہیں بلوچستان حکومت کی جانب سے فنڈنگ ہوتی ہے۔

ان اداروں کے پروگرام بیشتر یونیورسٹیوں میں منعقد ہوتے ہیں اور پاکستان فوج کے حاضر سروس آفسران منعقدہ پروگروموں میں لیکچر دیتے ہیں۔ تربت یونیورسٹی میں بھی کئی ایسے پروگرام منعقد ہوئے ہیں۔

3 اکتوبر 2021 کو ایسے ہی ایک پروگرام کے لئے کورکمانڈر کوئٹہ لیفیٹننٹ جنرل سرفراز علی تربت یونیورسٹی کے دورے میں پر آئے۔ 1 مارچ 2022 کو پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اعزاز میں تربت یونیورسٹی میں پروگرام منعقد ہوا، یہی تسلسل جاری رہا اور 10 اکتوبر 2022 کو کور کمانڈر بلوچستان میجر لیفیننٹ جنرل آصف غفور تربت یونیورسٹی کے دورے پر آئے اور طلباء نے اُن سے سخت سوالات پوچھے، جس کے کچھ دن بعد تربت یونیورسٹی کے تین طلباء جبری گمشدہ کر دئے گئے۔

آئی جی ایف سی باقاعدگی سے تربت یونیورسٹی میں آتے جاتے ہیں۔ چیف آف آرمی سے لیکر لیفیٹننٹ جنرل تک تربت یونیورسٹی میں آنے کے مقاصد کیا ہیں؟ کیونکہ وہ بلوچ نوجوانوں کی بلوچ تحریک سے وابستگی سے پریشان ہیں اور نوجوانوں کے سوچ کو کنٹرول کرنے کی لئے ایسے پروگرام منعقد کررہے ہیں ۔ ریاست بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے اور نوجوانوں کے سوچ بدلنے لے لئے سوفٹ طاقت استعمال کررہاہے۔

پچاس کی دہائی کو مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے اندر 144 نافذ کی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں چار سے ذیادہ طالبعلم ایک ساتھ نہ بیٹھ سکیں اور سیاسی ماحول پنپ نہ سکے اور جن طلباء نے یونیورسٹی انتظامیہ کے پابندی کو ماننے سے انکار کیا تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور تربت یونیورسٹی میں انتظامیہ نے بھی فوج کے کہنے پر یونیورسٹی میں طلباء کے ایک ساتھ بیٹھنے پر پابندی عائد کیا ہے۔

تربت یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں نصاب کے علاوہ کتابیں پڑھنے پر پابندی ہے اور جو طلباء کتابیں پڑھنے اور ڈسکشن کرتے پائے جاتے ہیں، انہیں پرو ہوسٹ ممتاز کی طرف سے دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اور طلباء کو زینی دباؤ ڈھالنے کے لئے میڈم پروین، ممتاز کے نام سے طلباء کو دھمکیاں دینے کا کام کرتی ہیں۔

لڑکوں کے ہاسٹل میں پرو ہوسٹ ممتاز فوجیوں کے کام سرانجام دے رہے ہیں۔ بلا وجہ طلباء کےکمروں اور الماریوں کی تلاشی لیتے ہیں۔یونیورسٹی کی غیر قانونی پالیسیوں کے خلاف آواز آٹھانے اور احتجاج کرنے کے والوں کے لئے فوج نے وی سی کے ذریعے یونیورسٹی میں ایک تادیبی کمیٹی بنایا ہے تاکہ طلباء کے آواز کو دبایا جا سکے ۔ جو طلباء اسٹوڈنٹس آرگناہزیشنز سے وابستہ ہیں انہیں کمیٹی میں طلب کرکے سیاست سے دور رکھنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

یونیورسٹی کے سیکیورٹی آفیسر شاہ میر فوج کے آلہ کار کا کردار ادا کررہے ہیں اور انہیں فوج کے کہنے پر اسٹوڈنٹس افیئر کے اضافی چارج دئے گئے ہیں۔ یونیورسٹی آفیسر شاہ میر وی سی سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ یہ شخص سرے عام طلباء کو اغوا کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔

یونیورسٹی علمی درس گاہ ہیں لیکن بلوچستان میں یونیورسٹیاں فوج کی چھاؤنی بنے ہوئے ہیں اور طلباء خوف کے سائے میں پڑھ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں پاکستان نے آپریشن سرچ لائٹ میں طلباء اور اساتذہ کی نسل کشی کی تھی اور آج بلوچستان میں قابض پاکستان ہماری نسل کشی دونوں طریقوں سے کر رہاہے۔ ایک طرف خوف کا ماحول بناکر طلباء کو زہنی مریض بنا رہے ہیں اور دوسری طرف طلباء کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ تربت یونیورسٹی اور بلوچستان کے باقی یونیورسٹیوں میں وی سی ؤ انتظامیہ فوج کے آلہ کار کا کردار ادا کررہے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی نسل کشی کرنے کے بعد بھی شکست پاکستان فوج کی مقدر بنی تھی، بلوچستان میں بھی انہیں شکست کا سامنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں