کمانڈو اور روکین دو عظیم ساتھی ۔ سنگت کوہ یار

848

کمانڈو اور روکین دو عظیم ساتھی

تحریر: سنگت کوہ یار

دی بلوچستان پوسٹ

ایک باکردار باعمل شخص ولید عرف کمانڈو بہار جس سے ملنے کو میں بے قرار تھا جس کے بارے میں ہر کیمپ ہر اوتاخ و دیوان میں سننے کو ملتا تھا اس کے ہنسی مذاق خوش مزاجی اور مخلصی کا میں دیوانہ تھا جب اس سے ملا بھی نہیں تھا تب بھی اس پر پورا بھروسہ تھا کیونکہ اس کے مخلصی کے بارے میں بہت سنا تھا۔

تین مہینے بعد جب میں اور دو ساتھی کسی کام پر جارہے تھے تو دوست نے دوربین کرکے بتایا کہ تین ساتھی آرہے ہیں اور ہمیں پہلے سے پتا تھا کہ ان میں سے ایک کمانڈو بہار بھی ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ ان سے ملاقات بھی ہوگی جب دوستوں نے پاس آکر سلام دعا کی تو مختصراً ملنے کے بعد ہم اپنے سفر پر روانہ ہوئے اس مختصر سی ملاقات میں ایسا لگا جیسا کہ وہ ہمیں سالوں سے جانتا تھا۔

پھر دو دن بعد جب ہم واپس اوتاخ آئے تو کمانڈو بھی ادھر ہی تھا ان سے ملاقات ہوئی پھر ہم کئی دنوں تک ساتھ رہے، حقیقتاً جتنا اس کے بارے میں سنا تھا اتنا ہی مخلص ایماندار باعمل باکردار تھا۔

اس کی یادیں ابھی بھی میرے ذہن میں گھوم رہے ہیں وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ مجھے بہت پہلے اس جہد آزادی کا حصہ بننا تھا بدقسمتی سے میں نے اپنا وقت ضائع کیا۔

پھر میں کہتا تھا کہ آپ نے تو صحیح وقت میں صحیح فیصلہ لیا ہے لوگ تو ابھی بھی سو رہے ہیں ابھی بھی فیصلہ نہیں لے پا رہے ہیں ۔ وہ مجھ سے ہر وقت یہی کہتا تھا کہ میں اور آپ کسی کیمپ میں جاکر فدائی کرینگے اور دشمن کو مجبور کرینگے کہ وہ ہمارے سرزمین کو چھوڑ کر چلا جائے۔ قربان اس کی سوچ پر جو ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھا۔ اس کی اور روکین کی شہادت کی خبر جب ہمیں ملی تو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ کمانڈو اور روکین جان اس طرح جلدی ہم سے جدا ہونگے۔

ان عظیم ہستیوں کو بھلانا بھی آسان نہیں ہوگا جن کے ساتھ آپ روز اٹھتے بیٹھتے آئے ہیں جن کی قربانیاں آپ روز دیکھتے آئے ہیں جو وطن کو اپنا ایمان اور مذہب سمجھتے تھے۔

دونوں عظیم ہستیوں نے اپنے تمام ذاتی خواہشات دفن کر کے قوم اور وطن کے لیے قربان ہوئے۔ ابھی بھی ایسا لگ رہا ہے کہ وہ بس کسی دوسرے گشت میں دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہیں اور جلد ہی ان سے ملاقات ہوگی۔

روکین کو جب بھی میں دیکھتا تھا تو مجھے اپنا چھوٹا بھائی یاد آتا تھا کہ وہ بھی روکین کی عمر کے برابر ہوگا لیکن ابھی بھی اسے معلوم ہی نہیں ہوگا کہ قوم اور وطن کیا ہیں۔

لیکن روکین جان اس عمر میں تحریک سے اچھی طرح واقف تھا اور جہد آزادی کی راہ میں چل رہا تھا۔

ایک دن کسی دوست نے مجھے ایک ویڈیو دکھایا جس میں ایک ساتھی بنا جوتوں کے چل رہا ہے اور ایک ساتھی اسے پیچھے سے ویڈیو کر رہا ہے تو میں نے ساتھی سے پوچھا کہ یہ کون ہیں جو بنا جوتوں کے چل رہا ہے تو اس نے کہا یہ روکین ہیں جب ایک نئے ساتھی کے چپل ٹوٹ گئے تھے روکین نے اسے اپنے جوتے دیے ہیں۔

قربان تیرے نام پر روکین جان ان پہاڑوں میں بنا جوتوں کے کیا جوتوں کے ساتھ چلنا مشکل ہے لیکن آپ بنا جوتوں کے حوصلے کے ساتھ چل رہے ہو۔

ایک بار روکین نے مجھے اپنی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ جب میں گھر میں تھا تو میں ہر وقت یہی کہتا تھا کہ مجھے بھیج دو پہاڑوں میں میں جاکے اپنے دوستوں کے ہمراہ دشمن سے لڑونگا۔

تو مجھے یہی کہا جاتا تا کہ آپ ابھی چھوٹے ہو جب بڑے ہونگے آپ کو بھیج دینگے تو میں نے ایک سال تک انتظار کرنے کے بعد پھر میں نے کہا ابھی مجھے بھیج دو اب میں انتظار نہیں کرونگا ابھی میں بڑا ہوگیا ہوں اب مجھے فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے پھر مجھے بھیج دیا گیا۔

کہتے ہیں کہ شہادت سرمچار کی زندگی ہوتی ہے؛ سرمچار کبھی بھی نہیں مر سکتا سرمچار اپنی قوم اپنے وطن اپنے سرزمین کی شکل میں زندہ رہتا ہے، ولید عرف کمانڈو بہار اور غنی عرف روکین بلوچ قومی فوج بلوچ لبریشن آرمی کے دو عظیم ساتھی تھے جنہوں نے 8 اپریل 2023 کو دشمن سے دو بدو لڑائی میں جام شہادت نوش کیا۔ شہیدوں کی قربانیاں ضرور ایک دن رنگ لائینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں