کچھی مسئلے کا تاریخی تناظر ۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری

666

کچھی مسئلے کا تاریخی تناظر
تحریر؛ پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری
دی بلوچستان پوسٹ


8 مارچ 1740ء میں نادر شاہ افشار لاڑکانہ پہنچا تو بی بی مریم نے اُس کی خدمت میں عرض کیا کہ میاں نور محمد خان کلہوڑا نے اس کے خاوند امیر عبداللہ کو ناجائز قتل کیا، اس کا خون بہا دلایا جائے۔ چنانچہ، نادر شاہ نے کچھی اور سیوی کا علاقہ عبداللہ خان کے خون بہا میں محبت خان کو دے دیا۔ اس طرح کچھی اور سیوی کا سیاسی تعلق اور انتظامی بندوبست واپس بلوچستان کو منتقل ہو گیا۔ چوں کہ عبداللہ قہار کے ساتھ سراوان دستہ کے کئی ایک سردار اور اُن کے قبائل کے لوگ 11فروری 1731ء کی جنگ بمقام چندری ہڑ میں کام آئے تھے، لہٰذا ان سب کا خون بہا دینا لازمی تھا۔

اس لیے محبت خان نے کچھی کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا:

1۔ ایک حصہ عبداللہ قہار کے خون بہا میں عبداللہ خان کی ملکیت قرار دیا۔

2۔ دوسرا حصہ اُن قبائل کے لیے مخصوص کر دیا گیا جنھوں نے اگرچہ اس لڑائی میں عبداللہ قہار خان کے ساتھ شرکت نہیں کی تھی مگر ان کی گزشتہ خدمات زبردست تھیں۔ یہ حصہ بھی خان کے قبضہ میں رہا جسے خان اپنی صوابدید کے مطابق دوسرے سرداروں اور ان کے قبائل یا خاص افراد کو وقتاً فوقتاً ان کی اہم جنگی خدمات کے صلے میں انعام کے بطور دیتا رہا۔

3۔ تیسرے حصہ کو بطریقِ ذیل قبائلِ سراوان میں تقسیم کیا گیا۔ اس لیے کہ عبداللہ قہار کے ساتھ اس آخری جنگ میں صرف سراوان کے قبائل تھے۔ جہلاوانی لشکر آخری دم تک کچھی نہیں پہنچ سکا تھا۔ اس لیے قبائلِ جہلاوان کو کوئی زمین بعوضِ خون بہا نہیں دی گئی۔

سراوان قبائل میں کچھی کا علاقہ اس طرح تقسیم کیا گیا:

1۔ قبیلہ رئیسانڑیں کے خون بہا میں موضع مٹھڑی محرم چوڑی
2۔ شاہوانڑیں کے خون بہا میں موضع حاجی شہر و مہیسر
3۔ قبیلہ لہڑی کے خون بہا میں موضع ہانبی
4۔ قبیلہ بنگلزئی کے خون بہا میں موضع چندڑ
5۔ قبیلہ رودینی کے خون بہا میں موضع تاج
6۔ قبیلہ محمد حسنی کے خون بہا میں کوگڑو
7۔ محمد شہی کے خون بہا میں موضع زرداد
8۔ مینگل کے خون بہا میں چھتر فلیجی
9۔ بزنجو کے خون بہا میں لانڈھی کے مختلف موضع جات
10۔ خان آف قلات نے ڈھاڈر شہر و کچھی کے مختلف علاقعہ جات کو اپنے تصرف میں رکھا۔
پانچ ہزار میل کے اس نئے علاقے نے قلات اسٹیٹ میں گویا ایک معاشی انقلاب برپا کر دیا۔ یہاں سے زرعی اجناس کی صورت میں کلات کو زبردست آمدن حاصل ہوتی رہی اور خانی بہت مضبوط ہوتی گئی۔ اس کے علاوہ زراعت میں ایک اہم نوع در آئی۔ کچھی میں دریاؤں پر بند باندھ لیے جاتے تھے دریائے بولان دریائے ناڑی جوکہ کبھی کے وسط سے گزرنے کی وجہ سے یہاں زرعی انقلاب بپا کر دیا اور اُس سے کاشت کی زمینوں کو سیراب کیا جانے لگا۔ یہ نیا طریقہ تھا۔ خود قلات میں سیلابی نالوں کے علاوہ ’’کاریز‘‘ آبپاشی کے بڑے ذرائع تھے۔

کچھی میں سیلابی پانی سے آب پاشی ہوتی تھی۔ دریا کے کناروں پر آباد ہر گاؤں نے مٹی کا ایک بند باندھ رکھا تھا تاکہ سیلابی پانی کو روکا جائے۔ جب ان کی زمینیں سیراب ہوتی تھیں تو وہ یہ بند توڑ دیتے تھے تاکہ نچلے گاؤں کے زمینداروں کا بند بھر جائے اور وہ بھی نالے نکال کر اپنی زمینوں کو سراب کر سکیں۔ یہ زبردست محنت کا کام تھا۔ 100جوڑے بیل پورا مہینہ کام کرتے تھے۔ اس سالانہ عمل کی نگرانی گاؤں کے بڑے افسر کرتے تھے جن کے پاس بڑی بڑی زمینیں تھیں۔ یہ افسر موروثی ہوا کرتے تھے۔ یہاں کے لوگ محمکہ زراعت میں کم تجربہ رکھتے تھے اسی وجہ سے خانہ معظم نے سندھ اور پنجاب سے تجربہ کار زرعی ماہرین کو یہاں لائے مزارا راحق بنائے تاکہ یہاں سے زیادہ سے زیادہ زرعی آمدنی حاصل کیا جاسکے۔

کچھی میں کئی فصلیں کاشت ہوتی تھیں۔ سیلابی زمینوں پر تو کپاس، دالیں اور تیل کا بیج کاشت ہوتے تھے۔ جب کہ نیل، گندم، جوار، کپاس اور میوہ و سبزیاں محدود مستقل پانی والے علاقوں میں ہوتی تھیں۔ تقسیم کار اور تقسیمِ پیداوار بہت پیچیدہ اور متنوع ہوا کرتا تھا۔ خرچے کی بابت عموماً کسان بیج بھی دیتا تھا، ایک بیل کا جوڑا بھی اور جانوروں کی غذا بھی۔ فصل کی پیداوار تین حصوں میں تقسیم ہوتی تھی۔ یعنی، حکمران طبقات، زمین کے مالک اور کسان میں۔ حکمران طبقات میں خان فیملی یعنی احمد زئی، قبائلی سردار اور قبیلے کے ذیلی فرقوں کے بڑے آتے تھے۔

چھوٹے قطعات پر زمین کا مالک خود ہی کاشت کیا کرتا مگر بڑی بڑی زمینوں والے لوگ بزگر رکھا کرتے تھے۔ ارباب اور رئیسوں کے علاقے میں کاشت کار ’’جٹ‘‘ ہوتے تھے جن میں جٹ یا جیدال کے مختلف اقوام ابڑو اعوان گجر بھیری و دیگر اقوام شامل تھے۔

بہت سی صورتوں میں ملکیت کے حقوق بلوچوں کو منتقل ہوئے یا انھوں نے قوت سے حاصل کیے۔ لہٰذا ڈومبکی لہڑی اور مغیری بالترتیب لہڑی اور بھاگ کے قریب جلال خان کے علاقے کے مالک بنے۔ کہیری، چھتر پلیجی کی ملکیت کا دعویٰ کرنے لگے اور مگسی سردار اپنے قبائلی علاقے جھل مگسی کا واحد دعوے دار بنا۔

رفتہ رفتہ زراعت میں ایک اور صورت بھی پیدا ہو گئی۔ جب مالک نے دیکھا کہ اس کے پاس خود کاشت کرنے سے زیادہ زمین آ گئی ہے اور بڑے بڑے بند باندھنا اُس کے بس سے باہر تھا، تب یوں ہونے لگا کہ مالکوں نے زمین کاشت کاروں کو دی جنھیں آبادکار، راہک، یا لٹ بند کسان کہتے تھے۔ ان کے ساتھ معاہدہ اُس وقت تک رہتا جب تک وہ بند یا گنڈھا سلامت رہتا۔ اس کے ٹوٹنے پر معاہدہ بھی ختم ہو جاتا تھا۔

اس محنت طلب نظامِ آبپاشی نے ہر گاؤں کو ایک اجتماعی پیداواری یونٹ بنا دیا تھا۔ اس کی بنیاد پر اناج کی تقسیم (بٹائی) ہوتی تھی۔ جہاں بڑے بڑے حصے تو حاکم لوگوں اور مالکوں کے ہوتے تھے مگر آبپاشی کے خرچ کا حصہ، ریونیو حکام کا حصہ، اور گاؤں کے سپیشلسٹوں کا حصہ بھی الگ کیا جاتا تھا۔ حاکم لوگ فصل میں سے اپنا حصہ پہلے لیتے تھے۔ اس طرح انتظامیہ اور آبپاشی کا خرچہ گاؤں والوں کو برداشت کرنا پڑتا تھا۔

یوں کچھی نے بلوچ ریاست کو قبائلی کی بہ نسبت ایک فیوڈل سلطنت کی طرف دھکیلنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں