رکن بلوچستان اسمبلی سردار یار محمد رند نے کہا ہے کہ میرے بیٹے پر حملہ کرنے والے دراصل مجھے نشانہ بنانا چاہتے تھے، آزادی پسند تنظیم سمیت کسی کو یہ اختیار نہیں دیں گے کہ وہ بلوچیت کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرے ہم سے زیادہ اس سرزمین اور دھرتی پر کوئی بلوچ نہیں ہے مجھے اپنی قوم، قبیلے اور بلوچستان پر فخر ہے سیاسی جہد کے ذریعے بلوچستان کی عزت وقار اور حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑی ہے۔ حملہ کروانے میں فرید نامی شخص شریک ہے جبکہ تنظیم کو سابق صوبائی وزیر کی جانب سے دس کروڑ روپے کی رقم اد ا کی گئی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈھاڈر میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
اس موقع پر سردار یارمحمد رند کے بیٹے سردار خان رند، رند قبیلے کے افراد، دیگر اقوام کے معتبرین بھی موجود تھے۔ سردار یار محمد رند نے کہا ہے کہ ہماری سیاسی جمہوری جدوجہد کا محور ہمیشہ سے بلوچستان کے حقوق عوام کے طرز زندگی میں بہتری اور یہاں عوام کے مسائل کا حل رہی ہے جس کے لئے نہ تو ہمارے آباؤ اجداد نے کبھی کسی قربانی سے دریغ کیا اور نہ ہم کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں میرے بیٹے سردار خان رند پر سنی شوران سے ڈھاڈر آتے ہوئے بولان کے علاقے میں بم حملہ کیا گیا جسے انتظامیہ نے ایک آئی ای ڈی بم کا نام دیا ۔
مگر میری اطلاعات کے مطابق یہ ایک ریموٹ کنٹرول بم تھا جس کے ہمراہ راکٹ لانچرز اور مزید بارودی مواد بھی منسلک کیا گیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے تاہم خوش قسمتی سے راکٹ لانچر اور دیگر بارودی مواد پھٹ نہ سکا تاہم ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے ہماری ایک گاڑی کو شدید نقصان پہنچا جس میں سوار ہمارا ایک محافظ ہلاک ہوا جبکہ دو شدید زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کی ذمہ داری آزادی پسند تنظیم کی جانب سے قبول کی گئی جس کے بعد اس تنظیم کی جانب سے اس حملے کو غلط فہمی قرار دینے کی کوشش کی گئی جس کی میں مذمت کرتا ہوں اس حملے کا بنیادی مقصد مجھے نشانہ بنانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تاہم اس دن میں بولان نہیں آسکا بلکہ سردار خان رند وہاں پہنچے اور انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اس حملے کی ہمیں کافی عرصے سے اطلاعات تھیں اور ہمیں یہ معلومات حاصل ہورہی تھیں کہ اس طرز کا کوئی حملہ ہم پر ہونے والا ہے جس کے لئے ہم ذہنی طورپر تیار تھے۔
“تنظیم کی جانب سے جس طرح اس واقعہ پر تعزیت کا اظہار کیا گیا ہے ہم انکے بہت مشکور ہیں کیونکہ انہیں اختیار مل چکا ہے کہ وہ جس بلوچ کو چاہے جان لیں جسے چاہے نشانہ بنائیں اور جس کو چاہے وہ قوم پرست بنائیں یا مفاد پرست بنائیں ہم نے یہ حق نہ پہلے کسی کو دیا اور نہ ہی اب دینگے اس سرزمین اور دھرتی پر ہم سے زیادہ بلوچ کوئی نہیں ہے مجھے اپنی قوم قبیلے بزرگوں اور بلوچستان پر فخر ہے حکومتوں کا حصہ ہونے کے باوجود بھی میں یہ دعوے سے کہتا ہوں کہ ہم نے اپنے مفادات کے لئے بلوچستان کے کسی ایک فرد واحد کو بھی تکلیف نہیں پہنچائی اور نہ کبھی ریاست کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔”
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کی دھرتی پرامن اور محفوظ رہے ہم نے اس صوبے کے حقوق کے لئے بے۔ بے پناہ قربانیاں دیں مگر کبھی بھی بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر نہیں گئے بلکہ بلوچستان کی عزت اور وقار کے لئے سیاسی جمہوری جہد پر یقین رکھااپنی سیاسی جہد میں ہم نے کبھی بلوچستان اور یہاں کے باسیوں کو شرمندہ ہونے نہیں دیا ہم پر حملہ کسی بڑے سیاسی مقصد یا بلوچستان کے لئے نہیں کیا گیا ۔
انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں باقاعدہ طورپر فرید رئیسانی نامی ایک شخص ملوث ہے جو لوگوں کو مجھ پر حملے کی پیش کش کرواتا رہا جب لوگوں نے انکار کیا تو اس تنظیم کا سہارا لیا گیا جس کے بارے میں مجھے علم ہے اس تنظیم کا تعلق کن سے ہے اور کون اسے چلاتے ہیں ہماری اطلاعات کے مطابق دھماکہ کرنے والوں کو سابق صوبائی وزیر کی جانب سے 10کروڑ روپے کی رقم دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کسی قسم کی غلط فہمی نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر حملہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا کہ میرا بیٹا اس حملے میں محفوظ رہا کیونکہ دھماکے کا نشانہ بننے والی گاڑی اور میرے بیٹے کی گاڑی میں صرف چند سیکنڈ کا فرق تھا انتظامیہ اس واقعہ کو ایک عام سا واقعہ جان رہی ہے لیکن ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم محفوظ نہیں تو پھر کون محفوظ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقات کے حوالے سے بھی سست روی کا سامنا ہے ہم نے واقعہ کی ایف آئی آر تو درج کر دی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد اس میں ملوث لوگ سامنے آئیں بلکہ جن جن لوگوں نے اس واقعہ کی سہولت کاری کی ہے انہیں بھی سامنے لایا جائے اس موقع پر سردار یار محمد رند کے فرزند سردار خان رند نے کہا ہے کہ واقعہ کے روز میں اپنے علاقے سنی شوران سے ڈھاڈر کی طرف آرہا تھا لیکن حملہ آوروں کا ہدف میرے والد سردار یار محمد رند تھا لیکن میرے وہاں پہنچنے پر مجھے نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میرے قافلے پر ہونے والے بم دھماکے میں میری بلٹ پروف گاڑی کی وجہ سے میں محفوظ رہا مگر میرے محافظ اس کی زد میں آگئے۔