ہم ایک ایسے دیس کے باسی ہیں
تحریر:منور ایاز تُمپی
دی بلوچستان پوسٹ
ھم ایک ایسے مُلک و ملّت میں زندگی گزار رہے ہیں اور ایک ایسے دیس کے باسی ہیں جہاں پہ انسانیت اور انسان کی زندگی کا کوئی بھی اہمیت نہیں، یہاں پہ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح زبح اگرچہ نہیں کیے جارہے ،لیکن اُن سے بھی بدترین موت دئیے جارہے ہیں،یہاں انسانی زندگی گزارنا اب مُشکل ہوگیا ہے، یہاں انسانی زندگیوں کا سودا سرِبازار ہو رہا ہے۔
روز صبح نیند سے اُٹھو بجائے طبعیت خوش باش ہونے ،ہر نیوز چینل،ہر اخبار پر بس یہی کہ آج فلاں جگہوں پہ اتنے لاش ملے،فلاں جگہوں پہ اتنے لوگ مارے گئے،،گویا یہاں اِس دیس میں انسانی زندگیوں کے ساتھ بزنس اور کاروبار ہوتے جارہے ہیں،اور یہاں مرنے اور مارے جانے والے لوگ سب غریب،مسکین لوگ اور اُنکو مارنے والے یا تو خود ریاست یا تو ریاست سے جُڑے وزیر و مشیر ھمارے حکمران اور اِنہیں حُکمرانوں کے رکھے ہوئے بدترین ظالم ہیں
نا کسی کے دل میں خوفِ خدا،نا یہ ڈر کہ کَل قیامت والی دن ہر ایک قتل کے بارے میں پوچھا جائے گا،بلکہ خود مقتول کو اجازت دی جائے گی اور وہ گریبان پکڑ کر پوچھیں گے کہ مجھے کیوں قتل کردیا گیا۔
یہاں ھمارے حکمران ،ھماری ریاست اِس قدر گِر چُکے ہیں کہ اپنے مفادات کے خاطر روز سینکڑوں،ہزاروں لوگوں کو قتل کردیتے ہیں،اللّٰہ کی قسم ھم نے پورے دُنیا میں ایسے مظالم،اور پیشہ وار قاتل نہیں دیکھے ہیں اور نا ہی سُنے ہیں،جسطرح ھمارے اِس مُلک میں روز کا تماشہ بنا ہوا ہے،،،
یہ بات 22 کروڑ بے وقوف عوام کی منہ پر تمانچہ ہے کہ ھم تماشائی بن کر بس دیکھ رہے ہیں،اور قاتل قتل کرنے کے باوجود عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں،اِس میں سب سے بڑی غلطی اور کوتاہی خود ھمارے عوام کا ہے۔
مزکورہ سانحہ بارکھان کو دیکھیں،میڈیا پہ دن بہ دن الگ تلگ باتیں گردِش تو کررہی ہیں لیکن مقتول کو نا کوئی سزا ھوگی،اور نا کہ پھانسی،ایک دو ہفتے عوام کو کسی دوسرے مسئلے مسائل میں ڈال کر اِس سانحہ کو بھلا کر مجرمان کو عزت سے رہائی ملے گی،،،پھر وہی حالات،پھر احتجاج ،پھر ایک دو ہفتے بعد ایک اور واردات کروا کر سب کُچھ ختم کروا دیا جائے گا،،،
لیکن ھم لوگ بس وہی جہالت،وہی بےوقوفوں کی طرح مار کھاتے جائیں گے،،،
خُدارا اپنے اندر اب شعور لائیں،خُدارا اب اِن ظالموں کو اُنکے انجام تک پہنچانے سے پہلے ٹھنڈ نہ پڑیں،کب تک یہ ظُلم اور حُکمرانوں کی بربریت برداشت کرتے رہو گے،،،
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں