بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیاں تشویشناک ہیں۔ ماما قدیر بلوچ

184

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ کا احتجاجی کیمپ آج 4972ویں روز جاری رہا۔

یاد رہے کہ احتجاجی کیمپ ڈھائی مہینے کراچی میں لگانے کے بعد آج سے پھر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لگایا گیا ہے۔

اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے ایک پیغام میں بتایا کہ کیمپ کی جگہ کو گندہ کیا گیا تھا، آج ہمارا پورا دن اسکی صفائی اور دیگر انتظام میں لگ گیا، ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حرکتوں سے ہمارا احتجاج رکنے والا نہیں ہے، ہمارا احتجاج آخری جبری لاپتہ شخص کی بازیابی تک جاری رہے گا، ہم پچھلے چودہ سالوں سے اس جہد کو آگے لے جا رہے ہیں، کبھی کوئٹہ یا پھر کراچی اور اسلام آباد میں بھی ہم نے احتجاج کیے ہیں –

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا ہے، اب اس میں مزید فورسز کو شامل کیا جا رہا ہے جس طرح کہ اب سی ٹی ڈی بھی لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کررہی ہے، بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیاں تشویشناک ہیں، اور یہ سلسلہ پچھلے کئی مہینوں سے شروع کیا گیا ہے، پچھلے مہینے کوئٹہ سے رشیدہ زہری اور پھر ماھل بلوچ کو اسکے گھر سے سی ٹی ڈی نے غیر قانونی حراست میں لے کر ان پہ ناجائز مقدمات لگائے اور جسمانی ریمانڈ پہ بھیجا گیا ہے جو سراسر نا انصافی اور ظلم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ خواتین کو اس طرح اٹھانا، بلوچ چادر و چار دیواری کی پائمالی ریاست کو مہنگا پڑے گا اس طرح کے حرکتوں سے وہ امن قائم نہیں کر سکتے بلکہ لوگوں کے دلوں میں مزید نفرت پیدا کر سکتے ہیں۔