بلوچستان، آگے بڑھو ان پیروں کو چوم لو
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
کیا یہ اس دل کی جیت ہے جو اس لیے دھڑکتا ہے کہ،،میرے دیس کے لوگ بہت اداس ہیں،،؟
کیا یہ ان ہاتھوں کی جیت ہے جو آگے بڑھتے ہیں،دامن کو جھولی بنا تے ہیں،لکھتے ہیں اور درد سے بھرے رہتے ہیں؟
کیا یہ ان نینوں کی جیت ہے جو سب کچھ ہونے اور کچھ بھی نہ ہونے پر اشک بار رہتے ہیں؟
کیا یہ اس دامن کی جیت ہے جو ہے تو تار تار دامنِ دیدا ور کی طرح پر پھر بھی جب کوئی دکھ ان آنکھوں میں سما جاتا ہے تو وہ دامن پھیل جاتا ہے اور بہت سی صدائیں نکلتی ہیں کہ
،،میرے دیس کے لوگ اداس ہیں!،،
کیا یہ ان ہاتھوں کی جیت ہے جو لکھتے ہیں،
جو دردوں سے دکھوں کے دامن کی رفو گیری کرتے ہیں
جو سچ کہنے کو بلند ہو تے ہیں جو کبھی کبھی نعرہ بن کر فضاؤں میں پھیل جا تے ہیں اور کہتے ہیں کہ
،،میرے دیس کے لوگ اداس ہیں!،،
کیا یہ ان آنکھوں کی جیت ہے جو سب کچھ سہتی ہیں جو سب کچھ برداشت کرتی ہیں اور جب کچھ برداشت نہ کر پائیں تو پانی پانی ہو جا تی ہیں اور اپنے نمکین پانیوں میں کہتی ہیں کہ
،،میرے دیس کے لوگ اداس ہیں!،،
کیا یہ ان سیاست دانوں کی جیت ہے جو کسی کے بھی نہیں اور پھر بھی چاہتے ہیں کہ ان کے سب ہوں!
کیا یہ ان سیا سی ورکروں کی جیت ہے جو چاہتے تو ہیں کہ تبدیلی آجائے اور ان کی بات بھی سنیں پر وہ آپس ایسے ہیں جیسے دو لڑتے قبیلے!
کیا یہ بلوچ دھرتی کی جیت ہے؟
ہاں یہ بلوچ دھرتی کی جیت ہے
ادھوری ہے صحیح!
زمانہ ہوا بلوچ دھرتی تو سسئی کی ماند مسافر ہے
کیا یہ ان ووٹروں کی جیت ہے جو ووٹ تو ایسے دے آتے ہیں کہ جیسے وہ مذہبی فرائض ادا کر رہے ہوں
پر انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے بعد کیا ہوگا!
اور وہ منتخب نمائیندے منتخب ہوجانے کے بعد فرعون ہو جا تے ہیں
اور وہ ووٹر انہیں اتنا بھی نہیں کہتے کہ
،،میرے دیس کے لوگ اداس ہیں!،،
کیا یہ ان لوگوں کی جیت ہے جو بہت ہیں،جو ہجوم ہیں جو اکیلے اکیلے بھی ہیں؟
جو کچھ نہیں جانتے،اگر وہ کچھ جان پا تے تو آج کوئی کسی کے گریبان پہ ہاتھ نہیں ڈالتا
تو پھر یہ کس کی جیت ہے؟
یہ ان پیروں کی جیت ہے جو چلتے رہتے ہیں
جو تھک تھک کر پھر چلتے ہیں
جو چل چل کر تھک جا تے ہیں پھر چلنے لگتے ہیں
وہ پیر جو کہیں رکے نہیں۔وہ پیر جو کہیں ٹھہرے نہیں
وہ پیر جو بلوچستان میں دردوں کو محبوبہ کی طرح تلاش کرتے ہیں
وہ پیر جو آزادی کی زمیں کے عاشق ہیں
وہ پیر جو بلوچ دھرتی کے سبزے کے عاشق تھے وہ پیر جو اب چوکیوں کی خار دار تاروں پر چل کر زخمی زخمی ہو چکے ہیں
وہ پیر جو گوادر کے ساحلوں کے دردوں سے واقف ہیں
وہ پیر جو خضدار کے پہاڑوں کے دردوں سے آشنا ہیں
وہ پیر جو آپ ہی پنہوں اور آپ ہی سسی ہیں
وہ پیر اگر ان کی آنکھیں ہو تی تو روز اشک بار ہو تے
وہ پیر جو اپنوں کے دردوں میں بھیگ جا تے ہیں
وہ پیر جو اتنا چلے ہیں جن کی مسافت کو کون ناپے!
وہ پیر جو دردوں سے پُر رہتے ہیں
کنوا ری لڑکی میں محبت کی طرح!
وہ پیر جو ماما قدیرکو مسافر بنا تے ہیں
وہ پیر جو فرزانہ کو مسافر بناتے ہیں
وہ پیر جو سمی کو مسافر بناتے ہیں
وہ پیر جو علی حیدر کو طویل مسافتیں طے کراتے ہیں
وہ پیر جو کبھی شال میں ہو تے ہیں اور کبھی کلاچی میں
وہ پیر جو دید رکھتے ہیں
وہ پیر جو سماعت رکھتے ہیں
وہ پیر جو گونگے نہیں
وہ پیر جو زباں رکھتے ہیں
وہ پیر جو دوست گلزار سے لڑتے جھگڑتے ہیں
وہ پیر جو سمی کی ایک نہیں سنتے
وہ پیر جو لطیف کے پیروں جیسے ہیں
وہ پیر جو سسی کے پیروں جیسے ہیں
وہ پیر جو فرید کے ان بولوں جیسے ہیں
،،درداں دی ما ری دلڑی علیل اے!،،
وہ پیر جو دل رکھتے ہیں
وہ پیر جو علیل دل رکھتے ہیں
وہ پیر جو فرزانی کو اپنی سچائی پر،،کملا،،اکیلا کر دیتے ہیں
وہ پیر جو ہو بہ ہو ان بولوں جیسے ہیں کہ
،،کملی کر کے چھڈ گئے او
پئی کھک گلیاں تاں رولاں!،،
وہ پیر جن پیروں نے سامی کو بن منزل کے مسافر بنا دیا ہے
مجھے نہیں معلوم کہ وہ پیر سامی کے دوست ہیں یا دشمن!
وہ پیر جو دشمن نما دوست ہیں اور دوست نما دشمن!
اگر وہ پیر دوست گلزار کو مسافر نہ بنا تے تو سامی ان کچے گھروں میں کیسے نظر آتے جن گھروں میں کوئی بوڑھا دوست گلزار سے یہ شکایت کرتا کہ
،،بوڑھا ہو چکا ہوں کیا کماؤ راشن ملا وہ تو میں کھا گیا اور اب یہ خیراتی ادا رے مجھے پیٹے کہتے ہیں مجھے گالیاں دیتے ہیں سنو سامی کیا میں پیٹو ہوں کیا میں اس لائق ہوں کہ یہ خیراتی ادا رے مجھے گالیاں دیں!،،
اس وقت دوست گلزارقلم روک لیتا ہے اور دور سے نظر آجاتا ہے کہ پہلے سامی اس بوڑھے بابا کے آنسو صاف کرتا ہے پھر منھ موڑ کر اپنی دید بھری نگاہوں سے آنسو صاف کرتا دکھائی دیتا ہے
اگر گلزار کو گلزار کے پیر مسافر نہ بنا تے تو وہ کیسے جا پاتا ان گھروں میں جن گھروں میں وہاں کے منتخب نمائیندے کیا پر وہاں کے سردار وڈیرے بھی نہیں جا تے
سامی جو دردوں کو محبوبہ کی طرح تلاش کرتا پھرتا ہے
اور اس میں اس کے مدد گار وہ پیر ہو تے ہیں جو سامی کے ساتھ محبت سے جڑے ہوئے ہیں
تو وہ جیت نہ اس ہجوم کی ہے جو ہجوم ہونے کے ساتھ ساتھ منتشر لوگوں کا میلا بھی ہے
اور نہ بلوچستان کی
نہ دوست گلزار کی
اور نہ ان لوگوں کی جو ہجوم کا حصہ بن کر چل پڑتے ہیں
پر یہ جیت ان پیروں کی ہے جن پیروں کے نشان ہی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہ پیر تنا چلے ہیں کتنا درد جھیل چکے ہیں کیا کیا دیکھ چکے ہیں
بلوچستان آگے بڑھ کر ان پیروں کو چوم لو
جو پیر دوست گلزار کے ہیں
جو لطیف کے پیروں جیسے ہیں
جو سسئی کے پیروں جیسے ہیں
یہ جیت ان پیروں کی ہے جو دوست گلزار کو مسافر بنا کر دوست گلزار کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں
اور پیچھے رہ جا تے ہیں بس نشان۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں