کربلائے ثانی؛ یزیدیت اور بلوچ ۔ نوشاد بلوچ

305

کربلائے ثانی؛ یزیدیت اور بلوچ

تحریر: نوشاد بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ 

‏‎بلوچستان میں ریاستی جبر کی داستان طویل ہے۔فرد سے لیکر خاندان اور خاندان سے لیکر پورے قوم تک کو ریاست نے وقتاََ فوقتا اپنی درندگی کا نشانہ بنایا ہے۔ ریاست ٹارگٹ کلنگ ، جبری اغواء کاری اور کال کوٹھڑیوں میں اذیت کے ذریعے بلوچ اور بلوچستان کو نیست نابود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن ریاست اور بلوچ کے درمیان تضاد کی خلیج روز بروز وسیع تر ہوتا جارہا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ بلوچ اور ریاست کی فکری و تہذیبی ہم آہنگی ناممکن ہے۔

‏‎دیگر ہزاروں داستانوں کی طرح ایک اذیت ناک داستان شہید تابش وسیم کے خاندان کی ہے۔ تابش خضدار/زہری سے تعلق رکھنے والے خوبرو نوجوان اور براہوئی زبان کے شاعر تھے۔ان کی شاعری ایک طرف سرزمین کی محبت بھری لے اور سُروں سے لبریز تھی تو دوسری طرف ریاستی مظالم کی آئینہ تھی۔ جبر اور ریاستی دہشتگردی کے آلہ کاروں نے نوجوان تابش کو اس کے ایک دوست لیاقت کے ساتھ 9 جون 2021کو زہری سے لاپتہ کردیا۔تابش وسیم کو لاپتہ کرنے کے بعد مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنےوالے لوگوں کی طرف سے احتجاج اور مذمتیں کی گئیں۔مگر یہ ریاست جہاں انصاف نامی کوئی بھی شئے وجود نہیں اسے بھلا کیا فرق پڑتا ہے۔عدالتوں میں بیٹھے ججوں سے لیکر اسمبلی کے ضمیر فروش تک سب انہی کے کارندے ہیں۔یہ بطور ایجنٹ ریاستی مشینری کو آئل کرتے ہیں۔ریاست کی طرح ان کے دلالوں کو بھی اس سے کوئی سروکار نہیں کہ خون ناحق کے بہنا آئینی و قانونی تناظر میں درست ہے یا غلط۔البتہ وہ اسے امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ کہاں کس جناب کو سلامی پیش کرنا ہے۔لین دین اور ٹھیکداری کرنے والے کھبی بھی قومی نمائندہ یا قومی مسائل کو پیش کرنے والے نہیں ہوتے۔ایسے آلہ کاروں کی موجودگی ریاستی جبر کو مزید جواز مہیا کرتا ہے کہ اسے کہاں ،کب اور کیا کرنا چاہیئے۔ریاست قومی تشخص اور اجتماعی شعور بیرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر دبانا چاہتا ہے لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ عمل غیر فطری ہے اور ایک غیر فطری ریاست کی طرف سے کی جارہی ہے لہٰذا جلد یا بدیر یہ اپنی انجام کو پہنچ جائیگا۔

سترہ مہینے عقوبت خانوں میں اذیت دینے کے بعد ریاست نے 17 اکتوبر 2022 کو تابش وسیم کی مسخ شدہ لاش کو خاران میں پھینک دیا۔اس کے ساتھ دیگر کئی خاندانوں کے چراغوں کو بھی گُل کردیا گیا۔تابش وسیم کے ساتھ لاپتہ کیئے جانے والا لیاقت تاحال زندانوں میں بند اذیتیں سہہ رہا ہے جس سے ریاست کا سفاک چہرہ عیاں ہوتا ہے۔مظالم کی یہ داستان روزِ اول سے اب تک نئی ابواب رقم کرتی آرہی ہیں۔یہ سلسلہ تابش کی شہادت پر رُکا نہیں۔بلکہ آگے بڑھ کر ان کے خاندان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

حال ہی میں 3 فروری 2023 کو گشکوری ٹاؤن بشیر چوک کوئٹہ سے شہید تابش وسیم کے چچا زاد بہن رشیدہ زہری اور اس کے شوہر رحیم زہری کو دو بچوں سمیت لاپتہ کردیا بعد ازاں بچوں کو تو رہا کردیا گیا لیکن رشیدہ زہری اور رحیم زہری تاحال ریاست کے عقوبت خانوں میں بند ہیں۔عورتوں کو اٹھانے کا سلسلہ زرینہ مری سے لیکر رشیدہ زہری تک الگ باب کا متقاضی ہے۔ریاستی خونخوار درندے ہر ذی شعور بلوچ سے شدید خوف اور سراسیمہ ہوکر اپنے مظالم کے دائرے کو وسیع تر کرتا چلا جارہا ہے۔

‏‎آئے روز رونما ہونے والے واقعات ریاستی بوکھلاہٹ کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست بچوں اور بوڑھوں سے لیکر عورتوں تک سے خوفزدہ ہے۔انہیں طرح طرح کے جسمانی و ذہنی اذیت دے کر اس خاک کی محبت کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس تاریخی عمل سے واقف نہیں جس نے ہزاروں سالوں سے اس ذہن کی تشکیل کی ہے۔یہ تاریخ کا وہ لمحہ ہے کہ قوم کو پوری قوت کے ساتھ اس ناپاک ریاست کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور اسے ہر ہر محاذ پر شکست دینا اپنا فرض عین سمجھنا چاہیئے۔وگرنہ ہر بلوچ مرد و عورت اور بلوچ ننگ و ناموس ان کے مظالم کا نشانہ بنتا چلا جائیگا۔مزاحمتی قوت کو مجتمع کرکے ایسے قابض کے خلاف تمام وسائل بروئے کار لایا جانا وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں