پاکستان غیرقانونی تارکین کو واپس بلائے ورنہ ویزا پابندیاں لگائیں گے۔ یورپی یونین

360

یورپی یونین نے پاکستان سمیت کئی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ اپنے غیرقانونی تارکین وطن کو واپس نہیں بلائیں گے تو ان پر ویزہ پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سویڈین کے وزیر برائے تارکین وطن نے جمعرات کو کہا ہے کہ یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ اپنے غیرقانونی تارکین کو واپس نہ بلانے والے ممالک پر یورپ کے ویزوں سے متعلق پابندیاں لاگو کی جائیں گے۔

اس متوقع سخت پالیسی کی جھلک یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلاوان ڈیر لیین کی جانب سے جمعرات کو یورپی یونین کے رکن ممالک کے رہنماؤں کو بھیجے گئے خط میں نظر آئی ہے۔

ارسلاوان ڈیر لیین نے اپنے خط میں پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، مراکش، تیونس اور نائیجیریا جیسے ممالک کا ذکر کیا ہے۔یہ خط یورپی یونین کے 9 اور 10 فروری کے اس سربراہی اجلاس سے قبل بھیجا گیا ہے جس میں اس مسئلے پر بات کی جائے گی
ارسلا وان ڈیر لیین نے کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک رواں برس کی پہلی ششماہی میں ایک پائلٹ سکیم پر دستخط کر سکتے ہیں تاکہ اہل تارکین وطن کے لیے سکریننگ اور سیاسی پناہ کے طریقہ کار کو تیز کیا جا سکے اور جو اس کے لیے اہل نہیں ہیں، ان کی فوری واپسی کی جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ یورپی یونین خطے کے محفوظ ممالک کی فہرست تیار کرے اور بحیرۂ روم اور مغربی بلقان کے ان راستوں پر سرحدی نگرانی کو سخت بنائے جو تارکین وطن یورپ جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں

ارسلا وان ڈیر لیین نے کہا کہ یورپی یونین نے پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، مراکش، تیونس اور نائیجیریا جیسے ممالک کے ساتھ تارکینِ وطن سے متعلق معاہدے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ واپسی کے عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔

دوسری جانب یورپی یونین کے ہوم افیئرز کی کمشنر یلوا جوہانسن نے کہا ہے کہ گزشتہ برس 10 لاکھ کے لگ بھگ سیاسی پناہ کی درخواستیں موصول ہونے کی وجہ سے کئی یورپی ممالک پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔

انہوں نے کہا کہ روس کی یوکرین کے ساتھ جنگ کے بعد 40 لاکھ یوکرینی تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے بھی یورپی ممالک مسائل کا شکار ہیں۔یورپی ممالک کا رخ کرنے والے افراد کی واپسی کی شرح میں بہت زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔

سنہ 2021 میں تین لاکھ 40 ہزار پانچ افراد کو یورپی ممالک سے واپس جانے کا حکم دیا گیا تھا لیکن ان میں صرف 21 فیصد اپنے ممالک کے لیے واپس روانہ ہوئے تھے۔