نوشکی کے رہنماؤں تم کہاں ہو؟ ۔ علی رضا رند

402

نوشکی کے رہنماؤں تم کہاں ہو؟

تحریر: علی رضا رند

دی بلوچستان پوسٹ

جمعۃ المبارک کے روز علی الصبح ہی نوشکی سے ایک دلخراش خبر آئی۔ ہم نے ایک اور انسان کو زندگی کے حق سے محروم ہوتے دیکھا جبکہ دوسرا انسان شدید زخمی حالت میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ چونکہ میں خود بھی اس کرب و الم سے گزرا ہوں اس لیے میں کسی کو قصوروار قرار دینے کی بجائے اس خونریزی کی ذمہ دار اپنے اجتماعی معاشرتی رویئے کو قرار دیتا ہوں۔ عبدالباقی جمالدینی کا خون سے لت پت لاش اور اس کے نازک جسم پر بندھی وہ چادر جسے بلوچیت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے ہر درد دل رکھنے والے انسان کو رنجیدہ کرگیا۔

غالباً 2019 سے شروع ہونے والے اس قبائلی جنگ نے اب تک جمالدینی قبیلے کے دو طائفوں سے کئی قیمتی انسانی جانیں نگل لیے اور یہ سلسلہ تمھنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ جنگ ضرور ہے لیکن اس کا انتقام کے سوا کوئی مقصد اور حاصل نہیں۔ دونوں جانب کے لوگ کسی روز ان شہدا کی قبروں پر جاکر زندگی بھر کی ندامت اور ملامت سے شرابور ہوں گے لیکن تب تک بہت نقصان ہوچکا ہوگا۔ میں یہ سوچ کر بھی کانپ جاتا ہوں کہ وہ مائیں، وہ بہنیں، وہ بچے اور بزرگ کس حال میں ہوں گے جن کے پیارے اس بے مقصد جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سچ بتاؤں تو مجھے اب نوشکی کا شعور اپنی موت آپ مرتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ اس زرخیز زمین کی تہیں اب اپنے فرزندوں کے خون ناحق سے رنگی جارہی ہیں۔ جس سرزمین نے کئی نامور علمی شخصیات کو جنم دیا وہاں اب جہالت پر پھیلا رہی ہے اور پورا معاشرہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس مسئلے کی حل کے لیے قبائلی سطح پر کوششیں کی گئیں لیکن یہ سب محدود پیمانے پر ہوا جبکہ ہمارا اجتماعی رویہ (جو ہمیشہ طاقتور کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے) بھی ایسے سنگین مسائل کی حل میں رکاوٹ ہے۔ آزات جمالدینی کا علم بلند رکھنے کی ذمہ داری نبھانے والوں کا یوں اپنوں کی خونریزی کا سلسلہ نجانے کب تک چلے اور انتقام کی آگ جانے اور کتنے لوگوں کی جانیں لے لیکن مورخ لکھے گا کہ اس سنگین موقع پر بلوچ سردار اور بلوچیت کے دعویدار خواب غفلت میں مبتلا رہے۔

میرا گلہ جمالدینیوں سے نہیں اپنے آپ سے ہے اپنے سرداروں سے ہے میروں سے ہے ٹکریوں سے ہے جن کے دستاربندی پر لاکھوں روپے اڑائے جاتے ہیں جن کی ٹشن بازی پر الگ خرچے آتے جن کا رعب پروٹوکول اور دبدبہ الگ سے دل جلاتی ہے۔ خدارا اس پریویلج کا حق ادا کریں یہ دستار اسی لیے ہی آپ کے سر پر باندھی گئی تھی کہ آپ ایسے سنگین مسائل کو حل کریں یہ طاقت اور مرتبہ بھی اسی لیے عطاء کی گئی کہ آپ قبائل کی رہنمائی کرکے انھیں ایک دوسرے کے حق میں کسی بھی قسم کی تجاوز سے روکیں لیکن آپ نے تو سب کچھ اپنا ذاتی حق سمجھ لیا۔ میرے خیال میں قاتل چاہے کوئی بھی ہو وہ تو ذمہ دار ہی ہے لیکن آپ سب بھی نوشکی کے دھرتی پر بہنے والے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب روز قیامت کو دیں گے۔ اس جنگ کا اختتام بہت ضروری ہے ورنہ ہمارے لیے مسقبل میں افسوس کہ سوا کچھ نہیں بچے گا۔ غالباً مست توکلی نے جنگوں سے ہی تنگ آکر یہ شعر کہا تھا کہ “جنگوں کی بولی اچھی نہیں ہوتی کیونکہ یہ انسان کو اپنے پیاروں کے لیے ترستا ہوا چھوڑتے ہیں” (اردو ترجمہ)

لہذا خدارا ان لوگوں کو اپنے پیاروں کے لیے ترستا نہ چھوڑیں جنہوں نے آپ کے سر پر اس خوبصورت دستار کو سجایا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں