ماحل ۔ یوسف بلوچ

442

ماحل
تحریر: یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

رات کے اندھیرے میں کوئٹہ کے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں ایک بلوچ ماں ایک بیوہ کی گھر پہ چھاپہ مار کر ان کی ننھی بچیوں کو زد و کوب کرکے،ان کے سامنے ماں کو اٹھانے والوں کے سامنے ایک بے بس ماں کیا کرے؟ان کی اپنی قوم کے فرزند،سرکاری نوش و عیش کی لذت سے اتنے اندھے ہو چکے ہیں، جن کی نظر میں نہتی ماں دہشتگرد ہے، بمبار ہے۔

سرکاری ترجمانی کا یہ عالم کہ گھر سے جبری لاپتہ بلوچ زاد،ان کی نظر میں پارک میں بڑی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔اچھا اب سوال یہ ہے کہ پارک میں ماحل کا منصوبہ کیا تھا؟ ان کی مشن پارک کی کرسیوں کو بارود سے اڑانا تھا۔ گراسی نیست و نابود کرنے تھے؟ ماحل اب کیا کرے کہ ان کے نمائندے اور لاپتہ افراد کمیشن سے ماحل کو تحفظ فراہم کرنے والے ماحل کے لیے بھوک ہڑتال پہ بیھٹنے کی عندیا دے رہے ہیں۔

وہی جن کے اختیارات لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا تھا۔ مقتدرہ کے ہاں بے بس ہیں۔ ماحل اب کیا کرے کہ ریاست کی سابق سربراہ مقتدرہ کی غیر آئینی طاقت کے سامنے بے بس ہیں،پریشان ہیں۔

ماحل کہاں جائے کہ ملک کے سربراہ طاقتور لوگوں کے ساتھ ماحل کی بازیابی کے لیے بات کرتے کرتے کچھ کر نہیں پا رہے۔

ماحل،زندان کی نظر لیکن ان کے زمین واسی جو جمہوری ریاست میں احتجاج کر رہے ہیں،تعداد ہزاروں میں ہے اور ان کی آواز فضا میں بے بس ہے۔
تو پھر سوال تو بنتا ہے;
ماحل کے ہاں کتنے آپشن دستْیاب ہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں