بی این ایم ترجمان نے میڈیا میں جاری ایک بیاں میں تمام چیپٹرز ، فارن ڈیپارٹمنٹ ، بی این ایم کے ہیومین رائٹس ڈیپارٹمنٹ اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اپنے مینڈیٹ اور ذمہ داریوں کے دائرے میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے جبر کی تازہ لہر اور جبری گمشدگیوں کے خلاف منظم اور مربوط پروگرامات کا انعقاد کریں اور اس ظلم و جبر کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے جائیں۔
بی این ایم کی اس مہم میں میڈیا پر آگاہی پھیلائی جائے گی، احتجاجی مظاہرے کیے جائیں ، مختلف بین الاقوامی اداروں کو خطوط لکھے جائیں گے ، بیرون ملک سفارتی سطح پر ملاقاتیں کی جائیں گی اور ان تمام سرگرمیوں کو مربوط کرکے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے میڈیا پر اجاگر کیا جائے گا۔
بی این ایم کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے رواں سال کے پہلے مہینے سے ہی پاکستانی فوج اور اس سے منسلک اداروں نے بلوچستان میں جاری جبر کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔پاکستان کی پارلیمانی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو بلوچستان میں ریاستی جبر کو تسلیم کرتی ہیں لیکن جب یہی جماعتیں حکومت کا حصہ بنتی ہیں تو جبری گمشدگیوں اور فوج کشی میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا ہے۔زرداری کی صدارت سے لے کر شہباز شریف کے وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہونے تک بلوچستان میں ریاستی جبر کے تسلسل اور شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔یہ وہ جماعتیں ہیں جو مسئلہ بلوچستان کو ڈکٹیر پرویز مشرف کا فعل و عمل قرار دے کر خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہیں۔لیکن مشرف کے اقتدار سے برطرف ہونے کے باوجود بلوچستان میں ریاستی مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی۔پاکستان کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتیں بلوچستان پر ہونے والے مظالم میں شریک جرم ہیں۔اسی طرح بلوچ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے بلوچ دشمن کردار سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔
ترجمان نے کہا 3 فروری کو ناشناس کالونی، گیشکوری ٹاؤن، شال سے محمد رحیم زھری ، ان کی والدہ بس خاتون،ان کی بیوی رشیدہ زھری اور ان کے دو کمسن بچوں دعازھری اور یحیی زھری کو پاکستانی فوج نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا۔ان کی والدہ اور دو کمسن بچوں کو چار دن بعد جبکہ ان کی بیوی کو 11 دن نامعلوم مقام ٹارچر سیل میں جبری لاپتہ رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ محمد رحیم زھری تاحال جبری لاپتہ ہیں۔
انھوں نے کہا رحیم زھری کے خاندان کو پہلے بھی پاکستان کی فوج نے نشانہ بنایا تھا ۔اس خاندان میں رحیم زھری کے علاوہ لیاقت بلوچ اور ذکریا بلوچ بھی جبری لاپتہ ہیں۔جبکہ تابش وسیم اور ظہور زھری کو پاکستانی فوج نے قتل کردیا ہے۔ماماشریف پر قاتلاںہ حملہ کیا گیا جس میں انھیں 6 گولیاں لگیں۔
ترجمان نے کہا بلوچ جہد آزادی سے وابستہ افراد کے اہل خانہ کو پاکستانی فوج اپنے اجتماعی سزاء کے ظالمانہ اور غیرانسانی پالیسی کے تحت نشانہ بنا رہی ہے۔اس میں ان لوگوں کے اہل خانہ کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جو پاکستانی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہیں یا وہ پرامن سیاسی کارکنان جو جبری لاپتہ ہیں یا انھیں ٹارچر سیلز میں قتل کرکے ان کی لاشیں پھینک دی گئی ہیں۔شہید ، قتل یا جبری گمشدہ کرنے کے باوجود پاکستانی فوج بلوچ آزادی پسندوں کے خاندانوں کو نشانہ بناتی ہے۔
’’ زمان بلوچ کے والد شہید سپاھان بلوچ قومی آزادی کے جہد میں شامل تھے۔ ان کے بیٹے زمان بلوچ کو 10 فروری کو پاکستانی فوج نے گرفتار کرکے جبری لاپتہ کیا اس سے قبل 9 جون 2020 کو بھی پاکستانی فوج نے انھیں گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا اور شدید تشدد کے بعد رہا کیا تھا۔10 فروری کو انھیں دوبارہ جبری لاپتہ کیا گیا۔جب ان کے خاندان نے اس جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کیا تو ان کے گھر پر پاکستانی فورسز نے چھاپہ مارا اور اہل خانہ پر تشدد کیا۔3 فروری کو پاکستانی عدالت کے حکم پر رہا کیے گئے عبدالحفیظ زھری کو جیل کے سامنے پاکستانی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے دوبارہ اغواء کی کوشش کی اور خاندان کی مزاحمت پر ان پر گولیاں چلائیں۔ مزاحمت پر ان کے اغواء کی کوشش ناکام ہوگئی لیکن وہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی زندگیاں اب بھی خطرے میں ہے۔‘‘
ترجمان نے کہا بیرون وطن بی این ایم کے چیپٹرز ، مرکزی عہدیدار ، سینٹرل کمیٹی کے ممبران اور ڈیپارٹمنٹس کے ذمہ داران بلوچستان میں حالیہ واقعات کے پس منظر میں بھرپور مہم چلائیں گے۔اس مہم کے دوران دنیا کو بلوچستان کی جہد آزادی کی حمایت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ بلوچستان کی آزادی کے بغیر بلوچ قوم انسانی وقار اور انسانی حقوق سے محروم رہے گی۔اس لیے پارٹی کے پروگرامات میں بلوچستان کے آزادی کے مطالبے کو ہمیشہ کی طرح مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔