ام المؤمنین عائشہ صدیقہ کی صغر سنی سے متعلق زھری کی راویت ۔ مولانا محمد اسماعیل

441

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ کی صغر سنی سے متعلق زھری کی راویت

تحریر: مولانا محمد اسماعیل

دی بلوچستان پوسٹ

آپ نے کبھی غور کیا ہوگا کہ عام طور پر قرآن کریم کا کوئی بھی آیت (جو اپنے معنی و مفہوم میں خواہ کتنا ہی مُحکم اور واضح کیوں نہ ہو) کسی محفل و مجلس میں برسبیل تذکرہ بیان کریں تو اہل مجلس اگر عوام میں سے ہوں تو ظاہر ہے وہ قرآن کریم کا حوالہ سنتے ہی احتراماً نہ صرف خاموش رہ کر بگوشِ ہوش متوجہ ہوں گے بلکہ سمجھنے میں بھی خوب دلچسپی لیتے نظر آئیں گے، اس کے بالکل برعکس اگر کسی مجلس میں اِکا دُکا کوئی مولوی یا مولوی نما کچھ صوفی حضرات تشریف فرما ہوں تو یہ حضرات قرآنی مفہوم میں نحوی، لغوی، ترکیبی پیرائے سے اگر مولوی ہو اور اگر صوفی ہوں تو مشہور خودساختہ اور من گھڑت روایاتی ادراج سے کام لیتے ہوئے فی البدیہہ کوئی الگ مفہوم سنا کر واضح معنی اور محکم مفہوم تبدیل کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔

میرے ساتھ یہ معاملہ کافی دفعہ پیش آیا ہے، یہ کام عام لوگوں کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا ہے جن کا دعوی ہے کہ ہم عالم دین یا پھر دین کے داعی ہیں، قرآن میں ایسے علماء اور صوفیوں کو ”الَّذِيۡنَ يَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَيَـبۡـغُوۡنَهَا عِوَجًا‌ ۚ “ کی علامت سے تعبیر کیا گیا ہے، کیوں کہ عوام یہ کام نہیں کرسکتی، معنی بدلنے اور من چاہی معانی ایجاد کرکے چسپاں کرنے کا بہتر کام مولوی اور مولوی نما صوفی ہی کرسکتے ہیں، روایات کے ذریعے قرآن کریم کے ساتھ بھی شروع سے ہی یہی کچھ ہو آیا ہے، خدا کا مراد کچھ اور ہوتا ہے اور روایات اس مراد کو کہیں اور لیکر جارہے ہوتے ہیں، غالباََ اسی صورت حال کو دیکھ کر امام احمد بن حنبل کو یہ صدائے بلالی بلند کرنا پڑی کہ ”تفسیری روایات کا کوئی اصل اور بنیاد نہیں۔“ اب چونکہ خود امام احمد بن حنبل بھی مجتہدِ مذہب اور محدث ہیں، ایسے میں کسی کو بھی جرات نہیں جو ان پر انکارِ حدیث کا فرسودہ فتوی منطبق کرسکے، کیوں کہ امام احمد منکر نہیں تھے بلکہ روایات اچھی طرح پرکھتے تھے، وہ منکرِ حدیث ہوتے تو اپنی ”مسند“ دس لاکھ روایات سے اخذ نہ کرچکے ہوتے، مسند احمد تقریبا تیس سے چالیس ہزار کے درمیان روایات پر مشتمل ایک وسیع روایاتی ریکارڈ کا ذخیرہ ہے، بیشک اس میں سے بہت سی روایتیں مجروح ہو متکلم فیہ ہوں۔ یہ نہیں کہ کوئی آپ کی پسندیدہ روایت کو دلائل کی روشنی میں رد کردے تو وہاں سے انہیں فورا منکرِ حدیث کا لقب دے دیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک فرامین سر آنکھوں پر، بات اگر رسول علیہ السلام کی شخصیت اور راوی کی روایت میں تضاد کی صورت میں ہو تو ہمارے لیے آپ کی پاکیزہ شخصیت مقدم ہے ہر راوی اور اس کی روایت سے خواہ کتنی ہی مقدس سند سے کیوں نہ نقل ہوکر آئی ہو۔ عمر عائشہ صدیقہ کو ہم آپ کی سیرتِ کے تناظر میں بالکل نہیں مانتے اور ائمہ نقد و جرح کے اصول کی روشنی میں ہمارے پیشِ نظر ان روایات کے اندر سقم اور واضح کذب بیانی بھی ہے۔ آئیے بخاری شریف کے بعد آج ذرا مسلم شریف کی روایت کا بھی کچھ ضروری پہلوؤں سے مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

ہمارے مذہبی طبقے کا عجیب مزاج ہے کہ مسند احمد صحاح ستہ سے قبل کا ایک حدیثی مجموعہ ہے۔ اس کی روایات پر نقد ہوسکتی ہے لیکن صحاح ستہ کسی ایک روایت کے منکر کو ایک اہل حدیث امام دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں، دیکھا دیکھی یہی ذہنیت دیوبندیوں اور بریلویوں کی بھی بن چکی ہے۔ حالانکہ ہم حنفی ہیں، احناف اخذِ روایت میں اہل حدیث اصولوں کے محتاج نہیں، آپ نے دیکھ لیا گزشتہ دنوں صغر سنی میں ام المؤمنین کی نکاح اور رخصتی کی روایت پر جب بخاری شریف کی روایت پر ابھی کچھ ہی لکھا تگو تو ردعمل میں نہ صرف غیر مقلدین بگڑ گئے تھے بلکہ خود ہمارے حنفی دوست بھی اس روایت کے دفاع میں ”مدعی سست گواہ چست“ کی مثل پیش پیش نظر آرہے تھے، حالانکہ یہ روایت ایک صریح بہتان ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر، یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی شان میں جب جب جس جس نے بھی اہانت کے ارتکاب کا مظاہرہ کیا ہے اس کےلیے یہی روایت اور اس جیسی بہتان طرازی سے روایات بنیاد بنی ہیں، جن کی خود کوئی اصل نہیں بس بڑی کتابوں میں درج ہوئی ہیں ہم نے ان کتابوں میں اندراج کی وجہ سے ان سے چمٹ گئے ہیں، جس نے بھی ایسی روایات پر تحقیق کرکے اپنی تحقیق ظاہر کیا ہے وہ روایت پرستوں کی طرف سے منکرِ حدیث ٹھہرے ہیں۔

گزشتہ دنوں جب ہشام کی سند پر بحث ہورہی تھی تو ایک دوست نے لکھا کہ ہشام اس روایت میں متفرد نہیں بلکہ ابن شہاب زہری کے واسطے سے بھی عروہ سے یہ روایت متبادل سند کے ساتھ نقل ہوکر آئی ہے، جب کہ ہشام متفرد نہیں بلکہ اس سند میں تدلیس ہوئی ہے۔ یہ سند مصنف عبدالرزاق کی ہے جو ابن شہاب زہری کے واسطے سے منقول ہے، خود مصنف میں بھی کچھ فرق کے ساتھ درج ہے اور امام مسلم نے بھی اسی ہی سند کو نقل کیا ہے۔ آج ”کشف الغمہ“ کی مدد سے کچھ اس سند کا جائزہ پیش کرنا ہے اور بخاری و مسلم کے بعد مزید کسی سند پر تنقید پیش کرنے کی ضرورت نہیں، اس کے بعد عمر عائشہ کی درست تعین پر مسند احمد کی متابعت سے صحاح ستہ سے کچھ نظیریں پیش کرکے ثابت کریں گے کہ بوقت نکاح آپ کی عمر 19 سے 20 برس کے لگ بھگ تھی اور بوقت وفات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 29 سے 30 برس کے لگ بھگ۔

سب سے پہلے مسلم شریف کی روایت بمع اسناد اور ترجمہ ملاحظہ کریں!

وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَلُعَبُهَا مَعَهَا وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ

”عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے نکاح کیا تو وہ سات سال کی لڑکی تھیں اور ان سے زفاف کیا گیا تو وہ نو سال کی لڑکی تھیں اور ان کے کھلونے ان کے ساتھ تھے اور جب آپ ﷺ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔“

(صحیح مسلم، حدیث نمبر 3181، کتاب: نکاح کا بیان)

پہلے اس سند کے راویوں کے ناموں کا سرسری تذکرہ کرتے ہیں:

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، عن زہری، عن عروہ، عن عائشہ۔

خود مصنف عبدالرزاق میں بھی یہ روایت ہے جیسے کہ سند بالا میں وہ راوی ہے۔ اس روایت کو پہلے یہاں نقل کرتے ہیں اور پھر دونوں متون میں تضادات کی نشاندہی کرلیتے ہیں کہ ایک ہی راوی اپنی کتاب میں کچھ لکھتا ہے اور دوسری کتاب میں ان سے کچھ اور منقول ہے۔

مصنف عبدالرزاق میں یہ روایت یوں نقل ہے:

عن عبدالرزاق عن معمر عن الزھری عن عروہ قال نکح النبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشۃ وھی بنت تسع و لعبھا معھا و مات عنھا وھی بنت ثمان عشرۃ۔ عبدالرزاق عن معمر عن ھشام بن عروہ عن ابیہ مثلہ

ترجمہ کی ضرورت نہیں، تضاد ملاحظہ کرلیجیے!

پہلی تضاد:

سب سے پہلے مسلم میں عبد ابن حمید سے جو روایت ہے اس میں ”عن عروۃ عن عائشہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ ہے اور خود مصنف میں ”عن عروۃ قال نکح النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ کتنی بڑی تضاد ہے ایک ہی روایت میں۔ ذرا آگے آئیں!

دوسری تضاد:

مسلم میں ہے “وھی بنت سبع سنین“ اور خود عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں اسے ”وھی بنت ست“ درج کیا ہے۔ یعنی نکاح کی وقت مسلم میں ایک ہی راوی کہہ رہا ہے کہ سات برس عمر تھی اور وہی راوی اپنی کتاب میں لکھ رہا ہے چھ برس عمر تھی۔

تیسری تضاد:

مسلم میں عبدالرزاق کہہ رہا ہے کہ ”اھدیت الیہ“ اور خود اپنی کتاب میں لکھ رہا ہے ”زفت الیہ“

صحیح مسلم میں عبدالرزاق کی سند سے روایت ہے جسے زھری کی سند قرار دیکر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے، کتنا فرق ہے کہ مسلم کے شیخ نے اسے اپنی کتاب میں ہشام کا سہارا لیکر مرسل سے مرفوع بنادیا ہے، ست (6) کو سبع (7) بنا دیا ہے، سنین کا لفظ بھی بڑھا رہا ہے۔ اھدیت کو زفت بنادیتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بات میں استاذ اور شاگرد کی بات میں تین واضح تضادات کیوں ہیں؟ سوال یہ ہے کہ مسلم کی روایت کو درست مان لی جائے یا اس کے شیخ کی روایت کو؟ چلیں کچھ مزید کھنگالتے ہیں اس معاملے کو۔

مصنف عبدالرزاق جو صحیح مسلم میں اس روایت کے اصل راوی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں جو ”اھدیت الیہ“ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ وہ زیادہ قابلِ غور ہے۔ اس میں وہ پورا جملہ یوں لکھتے ہیں کہ ”کانھا جاریۃ اھدیت الیہ“ یہ جملہ صریح طور پر ام المؤمنین کی اہانت پر مبنی ہے۔ اس کے اندر ”لعبھا معھا“ کے اضافے کو اس توہین میں اضافہ اور شخصیت میں استخفاف کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ جس سے پتہ چلتا ہے کہ روایت میں یہ جملے اور ان میں اضافہ خود معمر، زہری، عروہ اور ام المومنین پر بھی صریح بہتان اور واضح الزام تراشی پر مبنی ہیں۔ انہوں نے بڑی کاریگری سے یہ الزام ہشام کی اصل سند کے تذکرے کے ساتھ مثلہ ملاکر جان چھڑانے کےلیے لگادیا ہے اور وہ بھی مرسل صورت میں تاکہ یہ تاثر پیدا ہوجائے کہ ہشام کی روایت میں بھی ”لعبھا معھا“ کا ذکر ہے۔ متن کی یہ صورت حال ہے، اب ذرا اس کی سند کی زبردست دجل و فریب ائمہ رجال کے اصول کی روشنی میں راویوں کے حالات کے ذریعے ملاحظہ کرلیجیے!

1) عبد ابن حمید بن نضر الکوفی:

پیدائش 185ھ اور وفات 249ھ، یہ مسند کبیر کے مصنف ہیں، ان سے عام طور پر جو شاگرد روایتیں نقل کرتے ہیں ان کے نام یہ ہیں۔ یزید بن ہارون، محمد بن بشر عبدی، علی بن عاصم، ابو اسامہ اور مصنف عبدالرزاق۔ اس روایت میں عبدالرزاق بالکل اکیلے ہیں کوئی دوسرا شاگرد نہیں، خود عبدالرزاق کے متعمد شاگردوں میں مثلا امام احمد بن حنبل نے یہ روایت نہیں لی ہے۔(بلکہ مسند احمد میں تو اس کے برعکس ایک روایت ایسی بھی منقول ہے جس سے صریح طور پر صغر سنی کی تردید ہوتی ہے۔ یہ بحث موقع پہ آئے گی۔) مصنف عبدالرزاق سے منقول روایات کے متعلق ان کے شاگرد امام احمد بن حنبل کا مختصر تجزیہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے 200ھ سے پہلے عبدالرزاق سے سنا وہ روایت درست ہے اور جن لوگوں نے 200ھ کے بعد سن کر نقل کیا ہے وہ روایت درست نہیں۔ اس لیے کہ پہلے ان کی نظر درست تھی اور بعد میں خراب ہوگئی۔ اس روایت کی خرابی یہ ہے کہ یہ معمر کی ہے ہی نہیں بلکہ اس میں عبدالرزاق نے ادراج کیا ہے۔ بالفرض ادراج نہیں بلکہ عبد ابن حمید نے ان سے موصولاً سنا ہے تو یہ اندھا ہونے کے بعد سنا ہے۔ اس پر ان کے شاگرد رشید امام احمد کا تبصرہ برمحل ہے کہ جو روایت میری مسند میں نہ آئے وہ مجروح ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کا ذکر راوی معمر بن راشد کی کتاب ”الجامع“ میں بھی نہیں، پہلی بات یہ ہے کہ معمر کی کتاب میں ہونی چاہیے اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو کم از کم ابن شہاب زہری کے دیگر شاگردوں سے بھی نقل ہونی چاہیے تھی جوکہ بالکل نہیں۔

2) مصنف عبدالرزاق بن ہمام صنعانی:

کتب رجال میں عبدالرزاق کی زندگی کے تین حالات ملتے ہیں، ایک پہلا دور جو حصولِ علم کا ہے۔ اس میں وہ اہلسنت کی روپ میں ہوتے ہیں جو معمر کی وفات تک ہے۔ دوسرے دور میں وہ جب جعفر بن سلیمان سے شرفِ تلمذ حاصل کرتے ہیں تو شیعہ مذہب اختیار کرلیتے ہیں، اب وہ اپنی مسلک کی تبلیغ و اشاعت بھی کرتے ہیں، اس کےلیے وہ اپنے اولین استاذ معمر کی الجامع میں جابجا چھوٹے موٹے الفاظ اور جملوں کی صورت میں اپنی مسلک داخل کردیا ہے۔ ان کی اس ایک روایت میں کتنی تصریفات نظر آرہی ہیں؟ یہ تو آپ کے سامنے ہی ہے۔ تیسرا دور اندھان پن کا ہے جس کے متعلق امام احمد کی ریمارکس آپ نے ملاحظہ کرلیا ہے۔ پہلے دور میں ان سے جو روایتیں منقول ہیں بعض علماء ان روایتوں کی وجہ سے عبدالرزاق پر اندھا دھند اعتماد کرتے تھے، امام احمد اور یحی ابن معین نے عبدالرزاق کی روایات جب ترک کردیں تو محمد بن اسماعیل فزاری کا بیان ہے کہ ہم صنعاء (یمن) میں تھے اس کی خبر ہم پہنچی، بہت دکھ ہوا۔ ہم نے کہا کہ عبدالرزاق اگر مر تد بھی ہوجائے تو اس کی روایات ترک نہیں کرنی۔ امام واقدی جھوٹ سے مشہور ہے لیکن عباس عنبری کے مطابق وہ بھی عبدالرزاق کے مقابلے میں صدوق ہے۔ غرض یہ کہ عبدالرزاق کی صریح کذب بیانی، ادراج، تدلیس اور روایت سازی پر اصولین نے بڑی عمدہ تحقیق کی ہیں، اللالی المصنوعہ میں ملا علی قاری نے متذکرہ بالا سند کے ساتھ (حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اضافت سے) ان کی ایک روایت نقل کرکے اس پر جرح کی ہے۔ روایت یہ ہے:

”النظر الی علی ابن ابی طالب عبادۃ“

(یعنی حضرت علی ابن ابی طالب کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔)

طوالت سے بچنے کےلیے میرے خیال میں مصنف عبدالرزاق کے تذکرے میں یہی چند سطور کافی ہیں۔

3) معمر بن راشد بصری:

معمر پیدائشی غلام ہے اور بصرہ میں پیدا ہوئے ہیں، انہیں طاخیہ قبیلہ کے آقا نے ریشم دیکر فروخت کرنے کےلیے مدینہ بھیج دیا۔ انہوں نے وہاں پہ شہاب زہری سے ملاقات کی۔ یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے آزادی کب حاصل کی۔ اس سفر اور زہری کی وفات کے درمیان پانچ چھ سال بنتے ہیں، بہرحال بعد میں جب یہ صنعاء یمن گئے ہیں تو آزادی حاصل کرلی ہے۔ وہیں شادی کی ہے۔ وہیں مقیم رہے اور الجامع کتاب لکھی جس کے راوی اور جملہ علوم کے وارث عبدالرزاق قرار پائے۔ تہذیب التہذیب اور تدریب الراوی کی تصریح کے مطابق معمر کی کتاب ”الجامع“ میں ان کی زندگی میں ہی بھتیجے (جو غالی درجہ کے رافضی تھے) نے حسب منشاء روایتیں داخل کردی تھیں جوکہ معمر کو ان کا پتہ بھی نہیں لگنے دیا تھا۔ عبدالرزاق ان روایات کو استاذ کی روایات سمجھ کر نقل کرتے جاتے تھے۔ یوں اس طرز کے غیر واقعی روایات معتبر شاگردوں کے ذریعے چل نکلیں۔ کشف الغمہ نے عبدالرزاق کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے بھتیجے کے ذکر کو تاویل قرار دیا ہے۔ بہرحال عبدالرزاق کی حالت بھی آپ نے پڑھ لی اور معمر کی بھی۔

4) محمد بن مسلم بن شھاب زہری المدنی:

ابن شھاب زھری کا دعوی ہے کہ میں نے ابن عمر سے دو حدیثیں سنی ہیں، جس پر جرح کرتے ہوئے ائمہ نقد و رجال کی تنقید ان پہ پڑھی جاسکتی ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے کہا ہے کہ زہری نے ابن عمر سے کچھ بھی نہیں سنا ہے۔ یہی ابوحاتم نے بھی کہا ہے۔ علی بن المدائنی کے مطابق ابی سے ان کی حدیث وھم اور غیر مستقل ہے۔ یحی ابن سعید اور قتادہ، ابن شھاب زہری کی مراسیل کو ھو بمنزلۃ الریح (ہوا جیسی چیز) سمجھتے تھے، ھو بمنزلۃ الریح کی برمحل تعبیر علامہ رحمت اللہ طارق نے ”گوزِ شُتر“ سے کی ہے۔ زھری کا عروہ سے نہ لقاء ثابت ہے اور نہ ہی سماع اگرچہ انہوں نے زمانہ تو پایا ہے۔ ابن ابی حاتم علل الحدیث میں زھری کی عروہ سے سماع کو وہم قرار دیتے ہیں البتہ معنعن روایتیں ضرور ملتی ہیں۔ مسّ ذکر (شرم گاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو کا ٹوٹنے) والی روایت ابن زھری سے منقول ہے جس پر تنقید کرتے ہوئے امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں زھری اور عروہ پر جاندار تبصرہ کیا ہے۔ امام طحاوی نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یہ سند قابل اعتماد نہیں بلکہ مرسل اور منقطع ہے۔ امام طحاوی نے ثابت کیا ہے کہ عروہ اور زھری کے درمیان نہ لقاء ہے اور نہ ہی سماع بلکہ مسّ ذکر والی روایت میں ان کے درمیان ایک راوی عبداللہ بن ابی بکر بن محمد ہے۔ زھری کی عادت ہے جب کبھی ضعفاء سے روایت لیتے ہیں تو ان کو ترک کرکے خود اپنی نسبت اوپر کے راوی سے قائم کرلیتے ہیں۔ امام طحاوی نے ثابت کیا ہے کہ زھری نے واضح تدلیس سے کام چلایا ہے۔ امام طحاوی نے تو زھری اور عروہ کے درمیان راوی کی ایک دلچسپ حکایت بھی نقل کیا ہے۔ امام طحاوی امام شافعی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:

”میرے استاذ سفیان بن عیینہ نے فرمایا کہ دورانِ تعلیم جب ہم کسی آدمی کو چند آدمیوں سے حدیث حاصل کرتے ہوئے دیکھتے تھے جن میں سے ایک عبداللہ بن ابی بکر بھی تھا تو ہم ان احادیث حاصل کرنے والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ کیوں کہ عبداللہ بن ابی بکر جیسے لوگ تو جانتے ہی نہ تھے کہ حدیث کیا ہے۔“

بہرحال یہ تو حذف راوی کے حالات پر محض ایک حکایت تھی، اب ذرا مرسلاتِ زھری پر محدثین کی جرح ملاحظہ کرلیجیے!

قرآن کریم کے نامکمل ہونے پر دال جتنی بھی شکوک و شبہات پر مبنی روایتیں وہ امام زھری سے ہیں، فاضل دارالعلوم دیوبند مولانا حکیم نیاز احمد ”مظلوم قرآن“ درج اپنی تحریر میں مرویاتِ زھری کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ زھری ذوجھات شخصیت ہیں، ان کی حقیقت و ماہیت پر مطلع ہونے مشکل ہے، زھری کی روایات میں ایسی تضاد ہیں جن کی تطبیق و توجیہہ ممکن بھی نہیں، زھری الجھی ہوئی ڈور ہیں جس کا سرا پا لینا مشکل ہے۔ آگے اس کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ بھی درباری ہوگئے تھے۔ یہ عبدالملک بن مروان کی اولاد کے اتالیق مقرر ہوئے تھے، 45 برس ملازمت پر رہے اور اسی عہدے پر درباری زمانے میں وفات پاگئے۔ محض درباری ہونا شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں بلکہ ان کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ وہ بادشاہ کی قرب میں رہنے کی وجہ سے مزاج میں نفاق لیے ہوئے تھے، بادشاہوں کی مزاج شناسی، موقع پرستی، سخن سازی اور برمحل سخن پروری، بدیہہ گوئی، قدرتِ کلامی، کامل ابن الوقتی ان کی طبعیت ثانیہ بن چکی تھیں۔ حکیم صاحب کی تحقیق کے مطابق زھری بعض صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے متعلق سیئ الرائے تھے۔ روایات سازی میں بھی بڑا مقام رکھتے تھے، اس سند میں انہوں نے از خود عروہ اور ام المؤمنین کا نام استعمال کیا ہے۔

زھری سے منقول ایسی روایات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں، تاریخ اور شخصیت میں تضاد آجائے تو شخصیت مقدم ہے۔ ہم ایمان بالرسل کے مکلف ہیں ایمان بالزھری کے نہیں، زھری کسی فقہ کا امام بھی نہیں بلکہ محض تاریخ کی راوی ہے۔ زھری ائمہ نقد و جرح میں سے بھی نہیں، ان کی روایات میں رطب و یابس سب کچھ جمع ہیں، زھری سے متعلق یہ ساری باتیں ائمہ رجال نے لکھی ہے میں اپنی طرف سے نہیں لکھ رہا۔ ذوجہات شخصیت اور درباری ہونے کے ناطے ایسی تاریخی روایت میں وہ ہرگز ہمارے لیے مستند نہیں بن سکتے خصوصا جب خود انہیں ائمہ رجال میں سے بعض نے مدلس، بعض نے مرسل، مدرج اور یہاں تک کہ بعض نے حزبِ نفاق کا فرد قرار دیا ہے۔

امام شافعی اور دیگر محدثین نے مرسلاتِ زھری کے ارسال کا انکار کیا ہے۔ طبقاتِ الشافعیہ الکبری میں زھری کو کثیر الارسال قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ زھری پر تدلیس کا بھی الزام ہے اور وہ عبدالملک بن مروان کے درباری بھی بن چکے ہیں۔ متذکرہ بالا سند عبدالرزاق کے عنعنے سے بیان کی گئی ہے جو کہ انقطاع کی وجہ سے ناقابل اعتماد ہے۔ زھری کا عدم سماع سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت بھی ہشام ہی کی ہے۔ ہشام کی حالت آپ نے پہلے پڑھ لی جو بتصریح ائمہ رجال ابوجعفر منصور کے دربار میں ادائیگی قرض کےلیے گِڑ گِڑا رہے تھے اور وہی ابوجعفر منصور امام ابوحنیفہ کو بلاکر چیف جسٹس کی منصب کا پیشکش کرتا ہے۔ امام صاحب عہدہ لینے سے جیل جانے کو پسند کرتا ہے۔ بہرحال اس روایت کا بھی اصل کردار ہشام ہی ہے، ہشام اس معاملے میں اب تک متفرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زھری کی روایت کا کوئی ہمعصر مؤید بھی نہیں، ان کے اپنے سینکڑوں شاگرد ہیں لیکن صرف معمر اس روایت کو نقل کرتا ہے جن کی آزادی اور پھر رصافہ جاکر ملنے کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب گئے تھے کیوں کہ آخر وقت میں زھری کا حافظہ جواب دے چکا تھا۔ پھر معمر سے عبدالرزاق کے سوا کوئی نقل نہیں کرتا۔ نیچے سے کوئی مؤید نہیں عبدالرزاق عبد بن حمید سے نقل کرتا ہے اور پھر امام مسلم کی صحیح کے سوا کسی بھی کتاب میں یہ روایت زھری سے منقول نہیں۔ امام مالک اور زھری دونوں مدنی ہیں، امام مالک نے زھری سے سینکڑوں روایتیں لیں لیکن یہ روایت انہیں مدینہ میں ہوتے ہوئے نہیں ملی اور رصافہ میں معمر کو مل گئی۔

خلاصہ کلام یہ کہ اب تک کی بحث سے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی صغر سنی بخاری، مسلم اور مصنف عبدالرزاق کی روایت سے بالکل ثابت نہیں ہورہی، ہم نے متن پہ بھی بحث کی ہے اور ساتھ ساتھ سند پہ بھی کر رہے ہیں۔ بالفرض و المحال آئندہ کی بحث میں ایک ٹھیک ٹھاک سند بھی زیرِ بحث آجائے تو پیشگی عرض کردیتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے مکلف ہیں راویوں اور رجال صحاح پر نہیں۔ خصوصا جب معاملہ توہین انبیاء و صحابہ کا متضمن ہوں یا استخفاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ عظمتِ رسول اور ناموسِ صحابہ ہمیں ان روایات سے زیادہ عزیز ہیں خواہ امام بخاری کے ہوں یا امام مسلم کے، ابن شھاب زھری کے واسطہ سے ہوں یا پھر مصنف عبدالرزاق کی روایت سے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں