پاکستان میں سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ایک دہائی کے دوران سب سے جان لیوا مہینے کے ساتھ 2022 اختتام پذیر ہوا جس میں بیایل اے، ٹی ٹی پی اور داعش کی سرگرمیوں پر مشتمل تخریب کاری کی ایک نئی لہر ابھری۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2023 میں پاکستانکو مزید پرتشدد واقعات کا سامنا ہونے کا خدشہ ہے۔ 2022ء میں سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 282 اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی جنمیں سے 40 صرف دسمبر میں ہونے والے حملوں کے دوران ہوئیں، ان میں شامل دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) حملے، خودکش حملےاور سیکیورٹی پوسٹوں پر حملوں کے زیادہ تر واقعات پاک افغان سرحدی علاقوں میں ہوئے۔
2022ء کے دوران پاکستان کو 376 تخریبی حملوں کا سامنا کرنا پڑا، ٹی ٹی پی، داعش اور بی ایل اے جیسی تنظیموں نے ان میںسے 57 حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
خیال رہے نومبر میں بلوچستان میں محض دو روز کے دوران پاکستانی فورسز 18 کے قریب مختلف نوعیت کے حملے ہوئیں جن میں سےاکثریت کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ ان حملوں میں حکام نے 9 اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی جن میں ایککیپٹن و ایک کمیشنڈ آفیسر شامل تھیں۔
تخریب کاری کے واقعات کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی کل تعداد 973 رہی۔ مجموعی طور پر خیبر پختونخوا میں پرتشدد واقعاتغیر معمولی طور پر بڑھ گئے جہاں ہلاکتوں کی تعداد میں 108 فیصد اضافہ ہوا۔ ان واقعات کے نتیجے میں 62 فیصد اموات عامشہریوں، سرکاری عہدیداروں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی ہوئیں، باقی38 فیصد ہلاکتوں میں عسکریت پسند، باغی اور غیر قانونیسرگرمیوں میں ملوث دیگر افراد مارے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر کو جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے فوراً بعد خیبرپختونخوا اوربلوچستان میں تخریب کاری کا ایسا غیر معمولی سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں صرف دسمبر کے دوران 2 درجن سے زائد حملےرونما ہوئے۔ اس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں ہونے والی اموات کی شرح ملک میں ہونے والی کل اموات کا تقریباً 64 فیصد ہوگئیں،اس کے بعد 26 فیصد اموات کا تعلق بلوچستان ہے۔
حکام نے دعویٰ کیا کہ تخریب کاری کے بیش تر واقعات کا سِرا مشرقی افغانستان سے ملتا ہے، جہاں ٹی ٹی پی کے سرکردہ عسکریتپسندوں کی افغان حکومت مہمان نوازی کررہی ہے۔
افغان حکام نے ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو دوبارہ زندہ کردیا، 50 کروڑ ڈالر کی لاگت سے لگائی جانے والی سرحدی باڑ پر سوال کھڑےکرنے کے ساتھ ساتھ اسے اکھاڑنے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔
زیادہ تر تخریبی حملے کا دائرہ وزیرستان، باجوڑ اور کرم اضلاع سے ملحق بنوں میں مرکوز رہا، یہ اضلاع براہ راست افغان صوبوںکنڑ، ننگرہار، پکتیا، پکتیکا سے ملحقہ ہیں۔ پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ اسی لیے یہ علاقے پاکستانی حدود میں تخریب کاری کےمقاصد کے تحت داخل ہونے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
2023ء میں پاکستان میں تخریب کاری کے مزید واقعات بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، گزشتہ دہائی کے دوران رونما ہونے والےواقعات سے بظاہر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز (بشمول فوج اور پولیس) سمیت خیبرپختونخوا اور بلوچستان بھی تخریبکاری کی زد میں رہیں گے، نیز یہ چیلنجز اس وقت تک برقرار رہیں گے۔