لمہ وطن بانک کریمہ بلوچ کی زندگی اور جدوجہد ۔ نوروز بلوچ

621

لمہ وطن بانک کریمہ بلوچ کی زندگی اور جدوجہد 

تحریر: نوروز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

لمّہ وطن بانک کریمہ بلوچ 1986 کو واجہ مھراب بلوچ کے ہاں دبئی میں پیدا ہوئی، کریمہ بلوچ کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد مھراب بلوچ نے اپنے آبائی وطن بلوچستان کا رخ کیا۔

کریمہ بلوچ نے اپنی ابتدائی تعلیم گرلز ہائی سکول اور انٹر کالج تمپ سے حاصل کی اور مذید تعلیم حاصل کرنے کے خاطر عطاشاد ڈگری کالج تربت کا رخ کیا۔

بلوچ سرزمین پر ہونے والے ظلم اور زیادتیاں، بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں، بلوچستان میں ہونے والے فوجی آپریشنز اور بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی بانک کریمہ میں شعور و آگاہی پیدا کرتی ہے، وہ اپنے اندر غلامانہ سوچ کی نفی کرتے ہوئے انقلابی سوچ، اپنے وطن اور مظلوم قوم کی محکومی، قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم کو محسوس کرتے ہوئے جدوجہد میں شامل ہوتی ہے اور اپنی زندگی اپنی مظلوم قوم کی آذادی کی جدوجہد میں وقف کردیتی ہے اور وقت و حالات کے ساتھ سیکھتی رہتی ہے-

2005 کو بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیشن (آزاد) کی جانب سے تمپ میں گرلز ونگ بنایا جاتا ہے اور بانک کریمہ بلوچ گرلز ونگ تمپ کی سربراہ نامزد ہوتی ہے۔

بانک کریمہ بلوچ، بلوچ عورتوں کو قومی تحریک کا حصہ بنانے اور بلوچ قومی تحریک کو گھر گھر پہنچانے کی خاطر ہر طرح کی قربانی دیکر پاکستان کی ظلم کو بے پردہ کرتی ہے جس سے مظلوم قوم کی عورتوں میں قومی شعور پیدا ہوتی ہے اور وہ ظالم کی جبر کے خلاف مزاحمت کے لئے اٹھتی ہیں۔

بانک کریمہ بلوچ کی عظیم جدوجہد اور بےلوث قربانیوں کی وجہ سے بلوچ عورتیں ایک بہت بڑی تعداد میں قومی تحریک میں شامل ہوکر قومی فرض سرانجام دیتی ہیں۔

سال 2006 کو کریمہ بلوچ بی ایس او آزاد کی مرکزی کمیٹی کا رکن منتخب ہوتی ہیں اور اسی سال بلوچ مزاحمت کی ایک عظیم کردار نواب اکبر خان بگٹی بلوچستان کی پہاڑوں میں دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ عوام جن میں عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہوتی ہے سڑکوں پر نکل کر انقلابی نعروں کے ساتھ دشمن کی ظلم کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔

سال 2008 کو بانک کریمہ بلوچ BSO آزاد کی جونیئر وائس چیرپرسن منتخب ہوتی ہیں، یہ بلوچستان کا پُر آشوب دور ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ طلبا کو جبری گمشدہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہے ان جبری گمشدہ طلباء میں بی ایس او آزاد کی وائس چیرپرسن زاکر مجید بلوچ بھی شامل ہیں جوکہ آج تک ٹارچر سیلوں میں قید ہے۔

دشمن کے ظلم کا کوئی پیمانہ نہیں، بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں پاکستان کے مظالم ہم نے پڑے ہیں لیکن بلوچستان میں جو ہورہا ہے وہ بلوچ قوم کے یاداشت میں پیوست ہوچکا ہے۔ ریاست نے بلوچ عورتوں تحریک سے دور رکھنے کے لئے اُن کی جبری گمشدگی سے بھی گریز نہیں کیا لیکن کریمہ بلوچ اس خوف زدہ ماحول میں بھی آزادی کے لئے سیاسی مزاحمت کے شمع کو جلائے رکھا اور پُر آشوب دور میں بھی مظاہرے اور دوسرے پروگرامز کی اہتمام کرکے اپنی قومی جدوجہد جاری رکھی تھی جس سے کریمہ بلوچ معاشرے میں تبدیلی کا استعارہ بن کر ابھری تھی اور بہت بڑی تعداد میں بلوچ نوجوان قومی تحریک میں شامل ہوکر دشمن کے ظلم اور اپنی سرزمین پر قبضے کے خلاف پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔

سال 2012 کو بی ایس او آزاد کی کونسل سیشن میں بانک کریمہ بلوچ وائس چیریرسن منتخب ہوئے اور ایک سال بعد ریاست نے بی ایس او آزاد پر پابندی لگاکر crack down شروع کرکے بی ایس او آزاد کے سینکڑوں ورکروں کو جبری گمشدہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی تھی۔

سال 2013 میں آگست کے مہینے بی ایس او آزاد کی مرکزی سیکریٹری جنرل رضا جہانگیر شہید کردی جاتی ہے جبکہ ایک سال بعد 2014 کو مارچ کے مہینے بی ایس او آزاد کی چیئرمین زاہد بلوچ کو جبری گمشدہ کر دیا جاتا ہے، ان تمام تر مشکلات کے باوجود بانک کریمہ بلوچ دشمن کی ظلم کے سامنے پہاڑ بن کر قومی تحریک کو آگے لے جانے، بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کے خاطر ہر طرح کی قربانیاں دینے کیلئے تیار رہتی ہے۔

سال 2015 کو بی ایس او آزاد کی کونسل سیشن میں بانک کریمہ بلوچ چیرپرسن منتخب ہوکر بی ایس او کی تاریخ میں پہلی خاتون چیرپرسن ہونے کا اعزاز حاصل کرتی ہے اور بلوچ قومی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ کرتی ہیں۔

انسانی تخلیق آزمائش کے لیے ہے۔ قوموں کی زندگی میں آزادی اور انقلاب تب آتی ہیں جب قومیں آزادی کی راہ میں ہر آزمائش کا مقابلہ قربانی سے کرتی ہوں، آزمائشوں کی تپتی بھٹیوں سے نکل کر ہی قومیں غلامی سے نجات پاکر عظیم بنتی ہیں۔

بانک کریمہ بلوچ نے بلوچ خواتین کو سیاست میں لاکر نہ صرف بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنایا بلکہ سیاست میں خواتین کے قائدانہ کردار کی بنیاد بھی ڈالی۔ اپنے ہم عصر دیگر خواتین جہد کاروں کی نسبت کریمہ ایک قدم آگے چلے گئی اور ہر طرح کے آزمائشوں کا بہادری سے سامنا کیا۔انہوں نے بلوچستان کے کونے کونے میں خواتین کے ساتھ روابط قائم کر کے بلوچ قومی تحریک کو گھر گھر پہنچاکر سیاسی بیداری کا تاریخی فریضہ سر انجام دیا اور خود اس بیداری اور بلوچ خواتین کے اس نئے کردار کا کلیدی چہرہ بن گئی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں