ریکوڈک معاہدے کیخلاف احتجاجی مظاہرہ، بلوچستان کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنا ہماری ذمہ داری ہے، بی این پی

225

بلوچستان نیشنل پارٹی کی مرکزی کال پر ریکوڈک بل منظوری کیخلاف بی این پی ضلع کوئٹہ کے زیراہتمام احتجاجی ریلی میٹروکارپوریشن سبزہ زار سے شروع ہو کر ریگل چوک جناح روڈ پر گشت کے بعد منان چوک کے سامنے احتجاجی جلسے میں تبدیل ہوئی۔

شرکاء کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے جن پر ریکوڈک بل نا منظور، ساحل و وسائل پر بلوچ عوام کے حق حاکمیت و حق و اختیار تسلیمکرو، 18ویں ترمیم رول بیک کرنا نا منظور نا منظور،مکمل صوبائی خود مختاری بحال کرو جیسے نعرے درج تھے۔

احتجاجی جلسے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی، سابقسینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر و ضلعی صدر غلام نبی مری، بی ایس او کے ضلعی جنرلسیکرٹری عاطف رودینی بلوچ نے خطاب کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر علی احمد قمبرانی اور اسد سفیرشاہوانی نے انجام دیئے، قرار دادیں ضلعی سیکرٹری اطلاعات نسیم جاوید ہزارہ نے پیش۔

مقررین نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کا یہاں کے ساحل و وسائل جملہ قومی حقوق کے حوالے سے ایک واضح اصولی موقف ہےکہ یہاں کے عوام کی مرضی و منشاء تائید و حمایت کے بغیر ایسے میگا پروجیکٹ کو قبول نہیں کیا جائیگا جہاں یہاں کے لوگوں کوبائی پاس کر کے تمام اختیارات مرکز کے حوالے کئے جائیں، یہ عمل ملکی قوانین آئین اور 18ویں ترمیم کی واضح خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی سالوں سے بلوچستان کے عوام جن گمبھیر مسائل و مشکلات بحرانی حالات سے سفر کر رہے ہیں، اس کابنیادی سبب بھی یہی ہے کہ یہاں کے آمر اور نام نہاد حکمرانوں نے بلوچستان کی سرزمین کے اوپر اور نیچے معدنیات کو یہاں کےعوام کی حق حاکمیت نہیں سمجھا اور نہایت ہی دیدہ دلیری کوڑی کے بھاؤ فروخت کیا، جس کا ایک تاریخی پس منظر محرومیوں سےبھرا ہوا ہے، یہاں کے لوگوں نے اس بد ترین استحصال کو عملی طور پر محسوس کرتے ہوئے جمہوری جد و جہد کا راستہ ترک کر کےمشکل راہوں پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ماضی کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنا ہماری قومی وطنی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہے کیونکہ یہ سرزمینہماری مادر وطن ہے، اپنی شناخت وجود کو مٹانے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دینگے، مرکزی حکومت نے اگر ہمارے خدشاتاور تحفظات جو کہ ساحل وسائل کے حوالے سے ہیں اور جو رات کی تاریکی میں ریکوڈک کے حوالے سے قانون سازی کی گئی انہیںواپس نہیں لیا اور بلوچستان کو اپنے حقیقی وسائل کے حوالے سے وارث نہ سمجھا گیا تو پارٹی اس حوالے سے سخت فیصلہ کریگی،سیندک پروجیکٹ، سوئی گیس، کے وسائل کو لوٹ کر آج بھی یہاں کے وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر یہاں کے لوگ زندگی کی تمام تربنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، یہ کیسی ترقی ہے کہ یہاں کے حقیقی فرزند دو وقت کی روٹی نان شبینہ کے محتاج ہوں اور یہاں کےوسائل پر خفیہ معاہدے اور رات کے اندھیروں میں قرار دادیں منظور کروا کر لوٹ کھسوٹ کی راہ ہموار کی جاتی ہے، یہ ناروا عمل بیاین پی کو کسی بھی صورت میں نا قابل قبول ہے۔

مقررین نے کہا کہ 21ویں صدی میں مزید صوبوں کے اختیارات وفاق کے حوالے کرنے سے سنگین بحرانات، تضادات اور کشمکش پیداہوگی، جو کہ کسی بھی فریق کیلئے سود مند ثابت نہیں ہونگے، بی این پی کیلئے اقتدار مراعات کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے، ہمارےجد و جہد کا محور و مقصد بلوچستان کے وسائل کا ہر لحاض سے دفاع اور تحفظ کرنا ہے اور اس کی پاداش میں ہم ہر قسم کیقربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے کیونکہ ہم آنے والی تاریخ کے سامنے ایسے عمل نہیں دوہرائیں گے کہ جس سے ہماری قومیشناخت و وجود خطرے سے دوچار ہو۔

مقررین نے کہا کہ ساحل وسائل سے متعلق بلوچستان کے شیئرز 50فیصدسے زیادہ بڑھائے جائیں وفاق کے اختیارات کو کم کیا جائےکیونکہ یہ آئین میں واضع طور پر موجود ہے، صوبے جب مضبوط ہونگے تب وفاق بھی مضبوط ہوگا۔

مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک جاری ہے، اور بلوچستان کو ایک صوبے کی بجائے ایک کالونی کے طرزپر چلایا جا رہا ہے جو کہ حکمرانوں کی 70سالوں کی روا رکھی گئی پالیسیوں اور روش کا تسلسل ہے، ملک کے دیگر صوبوں کےوسائل کا اختیار ان کے پاس ہے جبکہ بلوچستان قدرتی دولت سے مالا مال سیندک اور دیکوڈک کو وفاق کے حوالے کر کے بلوچستان کومزید احساس محرومیوں اور پسماندگیوں کی طرف دھکیلنے کی گھناؤنی سازشیں کی جا رہی ہیں اور خاص کر بی این پی جیسیفعال اور متحرک اور یہاں کی مقبول ترین حقوق کی نمائندہ سیاسی قوم وطن دوس ترقی پسند سیکولر نظریات رکھنے والی جماعت کودیوار سے لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔