بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں پشتون پارلیمانی رہنماء محمود خان اچکزئی کے بیان کو ریاستی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک قبضہ گیر کی حیثیت سے اپنے آلہ کاروں کو استعمال کر کے بلوچستان میں آباد قوموں کے درمیان تضاد پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح کے حربوں کو بروئے کار لانے کا بنیادی مقصد مقبوضہ اقوام کی قبضہ گیریت کے خلاف جدوجہد کی سمت کو موڑ کر آپسی تضاد میں الجھانا ہے تاکہ پاکستانی قبضہ اپنی جڑوں کو مضبوط اور توانا کر سکے۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان بلوچوں کی سرزمین ہے اور بلوچ قوم ہی اس کا وارث ہے۔ بلوچستان میں کئی دیگر اقوام اقلیت میں اس سرزمین پر آباد ہیں اور بلوچ قوم نے دریا دلی کا ثبوت دیتے ہوئے کبھی بھی ایسے مخاصمے کو ہوا دینے کی کوشش نہیں کی جو دیگر اقوام میں غیر محفوظی اور شناختی بحران جیسے احساس کا موجب ہو۔ صدیوں سے انگریز اور پنجابی استعمار کا زیر قبضہ ہونے کے باعث بلوچستان کو انتظامی اور سیاسی حدبندیوں کے بنیاد پر نہ صرف ٹکڑوں میں بانٹا گیا بلکہ ڈیموگرافک تبدیلیاں لا کر بلوچ سرزمین پر ہی بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔
انھوں نے مزید کہا کہ بلوچ کبھی بھی توسیع پسند نہیں رہے ہیں بلکہ ہر دور میں اپنے سرزمین پر قومی حاکمیت کو برقرار رکھنے کیلئے بیرونی یلغار کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے رہے ہیں۔ بلوچ قوم دیگر اقوام کے تاریخی اور جغرافیائی حدبندیوں کی نہ صرف احترام کرتی ہے بلکہ محکوم و مظلوم اقوام بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر بلوچ سرزمین کے حدبندیوں کے خلاف کسی بھی قسم کے محاذ کھولنے سے اجتناب کریں۔ پاکستانی پارلیمانی سیاست سے منسلک چند زرخرید اور آلہ کار ایک سازش کے تحت بلوچ قومی سرزمین کے تاریخی و جغرافیائی حدبندیوں کے خلاف ایک بیانیہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قبضہ گیر کے گھناؤنے منصوبے کا حصہ ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ پشتون قوم کو ایک محکوم اقوام کے حیثیت سے ایسے عناصر کا ادراک کرتے ہوئے ایسے بیانیے کی بیخ کنی کرنی چاہیے۔ دونوں برادر اقوام کے درمیان ایسے تضادات کو پروان چڑھانا تباہی اور نقصانات پر ہی منتج ہو گا کیونکہ بلوچ قوم اپنے سرزمین کے دفاع کیلئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرے گی۔