بلوچ تحریک کا سورما جنرل اسلم بلوچ ۔ سلیمان بلوچ

684

بلوچ تحریک کا سورما جنرل اسلم بلوچ

تحریر: سلیمان بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

جب بھی قدرت کو اندیشہ ہوتا گیا کہ فلاں وقت کوئی ظالم جابر، انسانوں پر ظلم ڈھائے گا، جب بھی دن کی روشنائی پر تاریک رات قدم جمانا شروع کریں گے، جب بھی روئے زمین پر کوئی فرعون نما انسان اپنی بری آنکھیں زمین پر ڈالے گا۔ تو قدرت کے تاریخ نویس تاریخ کے اس سورما کو ڈھونڈنا شروع کریں گے جو وقت فرعون پر موسی بن کر آئے گا۔ تب قدرت کے کہانیوں میں ایک سورمہ کی کہانی لکھی جائے گی ۔ظالم کو احساس ہوگا کہ ہم پر ایک موسی آنے والا ہے ۔ جب بھی ظلم کی دنیا کا نجومی اندھیری راتوں میں مہرے گمائے گا تو انہیں دور چمکتا ستارہ دکھائی دے گا جو اندھیری راتوں کو دن کے اجالے میں بدل دے گا ہزار بٹھکے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھائے گا۔ قدرت نے بلوچ زمین کی محرومیوں پر ترس کھا کر کوئی سورما بیجھنے کا فیصلہ کیا تو قدرت نے اس سورما کے حوصلوں اور امیدوں کو بولان کی چٹانوں سے بھی زیادہ مضبوط بنا کر بھیجا۔

وہ زندگی اور موت کے کشمکش میں کہتا ہے { رونے والوں سے کہو مایوس نہ ہو جاو مجھے دیکھو میں بھی تو ہنس کے جا رہا ہوں } گویا یوں گمان ہوتا ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کر کے جارہا ہو، شاید اسے کسی چیز کی افسوس نہیں ہورہا تھا، وہ اپنا فرض ادا کر کے چلا گیا۔

استاد کی شہادت سے کچھ مہینے پہلے محاذ پر ایک ساتھی شال میں اپنے جنگ کے حامی رضاکار کو پیغام کرتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے بی ایل اے کی طرف سے ایک خودکش{فدائی} حملہ ہوا ہے یہ حملہ بی ایل اے کے بانی رہنما اور نئی قیادت کے سربراہ کے بیٹے نے کیا ہے۔ اس وقت پیغام کو سن کر حیران ہو گیا لیکن مزید سوال کرنے سے پہلے تنظیمی ساتھی نے فدائی ریحان کی وہ ریکارڈ کی گئی تصویر اور ویڈیو سنگت کو بھیجے جس میں ایک باپ اپنے بیٹے کو خوشی خوشی بلوچستان کا بیرک اوڑھ کر اور ایک ماں اپنے دید و ساہ کو گلے سے لگا کر جنگ کے تاریخ میں امر ہونے کیلئے بھیجتا ہے۔ ان دو تصاویر میں سے آپ ایک چیز کا اندازہ آسانی سے لگا سکتے ہیں۔ ایک طرف ان والدین کے آنکھوں میں بیٹے کی پے پناہ محبت اور جدائی تو دوسری طرف ایک نئی اور پر امید کل کا سورج۔ اب آگے کیا ہونے والا ہے اس بات کا اندازہ ہمیں اور دشمن کو بخوبی ہو گیا تھا کہ آنے والے وقتوں میں جنگ کا رخ کس طرف ہونے والا ہے۔

اسلئے دشمن اپنی فرعونیت کو برقرار رکھنے کیلئے اس بلوچ سورمہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ اس بار نجومی نے اپنے مہرے تو درست لگائے تھے لیکن نجومی کا اندازہ غلط ثابت ہوا دشمن کو لگا (استاد) کو شہید کرنے کےبعد یہ سلسلہ تھم جائے گا لیکن وہی ہوا جس طرح ( استاد ) نے سوچا تھا 25 دسمبر 2018 کو دشمن اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوتا ہے لیکن اپنے مقصد میں مکمل ناکام ہو جاتا ہے۔

29 دسمبر 2018 کو محاز پر ساتھی شال کے سخت سردی میں اپنے جنگ کی حامی رضاکار کو دوبارہ پیغام کرتا ہے کہ { اس بار تنظیم کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے } پوچھنے پر بتاتا ہے کہ استاد کو شہید کیا گیا ہے۔

بنا کچھ سوچے بغیر کسی حیرانگی کے وہ رضاکار واپس پیغام بھیجتا ہے { ایک کے جانے سے تنظیم ختم نہیں ہوگا جنگ کا رخ بدلتا رہے گا لیکن ختم نہیں ہوگا} یہ پیغام اس رضاکار کے نہیں تھے بلکہ یہ پیغام اس بلند چٹان جیسے حوصلوں کے تھے ، یہ پیغام بولان کے تھے ، یہ پیغام سورو کیمپ کے بابرکت سوچ کے تھے ، یہ پیغام بلوچ تحریک کے سورما جنرل اسلم بلوچ کے تھے۔ یہ پیغام ساحل کی گرم لہروں کے تھے ، یہ پیغام کلبر کے بادلوں کی گرج کے تھے ، یہ پیغام مکران کے گرم ہواؤں کے تھے ، ہاں ہاں یہ پیغام بلوچ تحریک کے سب سے متاثر کن شخصیت جدید گوریلا کمانڈر اور ایک دور اندیش تجربہ کار شخص جنرل اسلم بلوچ کے تھے۔

استاد اسلم بلوچ کی آواز اب بھی ان گلیوں میں ، پہاڑوں میں دوستوں کے خوابوں میں شاگردوں کے نصیحتوں میں گونج رہی ہیں ۔ وہ آواز کبھی کوہ باتیل میں دشمن کو دھول چٹا رہے ہیں ، تو کبھی سمندر کنارے دشمن کو نیست نابود کر رہے ہیں ، کبھی وہ آواز کراچی کے شور گلیوں کو خاموش کر رہے ہیں تو کبھی پنجگور و نوشکی میں دشمن کو تہس نہس کر رہے ہیں ۔

محاذ پر بندوق کے بیرل سے نکلا پہلا تیر سے لیکر گڈی کوسم (آخری گولی) تک دشمن سے دوبدو ہیں ۔ فدائیوں کی بارود کے فن سے لیکر انگلی و ٹریگر تک وہ استاد اسلم کی پیغام کو پہنچا رہے ہیں ۔

ہزاروں بلوچ مظلوموں کی دعاؤں کو نچوڑ کر قدرت نے استاد اسلم جیسے سورمہ بلوچ تحریک کو بخش کر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم کو استاد اسلم جیسا لیڈر نصیب ہوا ہے۔ وگر نہ قوم ایسی جنگوں میں ایسے ختم ہوئے کہ دوبارہ لفظ “جنگ ” سے کترانے لگتے تھے اور ان کا نام و نشان روح زمین پر ایسے غائب ہو جائے گا پھر ان کا تصور بھی ایک معمہ بن کے رہ جائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں