وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم لاپتہ افراد کے لواحقین کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4818 دن مکمل ہوگئے۔ مشکے سے سیاسی و سماجی کارکنان نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-
کیمپ آئے وفد سے گفتگو میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ریاست اپنی فوجی مشنری سے بلوچوں کے روشن مستقبل اور حقیقی سماجی قوتوں کو کچل رہا ہے، ہزاروں نوعمر نوجوانوں کو قتل کردیا گیا ہے جن کی مسخ شدہ لاشیں وصول کرتے ہوئے آج تک بلوچ قوم سوگ میں ہے-
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا آج بھی ہزاروں کے تعداد میں افراد ریاستی عقوبت خانوں میں قید ہیں 55 ہزار افراد اس دوران بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے اور ان میں وہ افراد شامل ہیں جو دس دس سالوں سے قید ہیں جنھیں پاکستانی فورسز نے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کے دوران حراست میں لیکر لاپتہ کرچکا ہے-
انکا کہنا تھا کہ بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کی تصدیق قانون نافذ کرنے والے اداروں حکومتی ارکان و عدلیہ خود کرچکے ہیں اسکے باجود لاپتہ بلوچوں کو منظر عام پر لانے کے لئے تمام قوتیں ناکام رہی ہیں-
انہوں نے کہا جبری گمشدگیوں کے حوالے سے قائم حکومتی کمیٹی رواں ماہ کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کریگی-
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا سردار اختر مینگل کے سربراہی میں قائم کمیشن 15 نومبر کو کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کیے احتجاجی کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماوں اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کرینگے-
انہوں نے بتایا احتجاجی کیمپ کے دورے کے موقع پر وفاقی سیکرٹری داخلہ، وفاقی سیکرٹری ہیومن رائٹس اور سیکرٹری سیکرٹریٹ سینٹ بھی کمیشن کے سربراہ اور ممبران کے ہمراہ ہونگے۔ ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ لواحقین کو اطلاع دی گئی ہے کہ وہ 15 نومبر کو احتجاجی کیمپ میں اپنی موجودگی یقینی بناتے اپنے لاپتہ پیاروں کے حوالے سے تفصیلات کمیٹی کو فراہم کریں-