سی ٹی ڈی نے خضدار سے جبری لاپتہ نوجوانوں کی گرفتاری ظاہر کردی

648

کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے خضدار سے گذشتہ دنوں جبری طور پر لاپتہ نوجوانوں کی گرفتاری کوئٹہ سے ظاہر کردی۔

ایک ہفتے کے دوران سی ٹی ڈی کیجانب سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کاروائیوں کا یہ چوتھا دعویٰ ہے جبکہ ان کاروائیوں میں گرفتار ظاہر کیئے جانے والے تین افراد کی شناخت پہلے سے جبری لاپتہ نوجوانوں کے طور پر ہوئی ہے۔

سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ روز سی ٹی ڈی کو ایک مصدقہ ذرائع سے اطلاع ملی کہ بلوچ لبریشن آرمی کے مشتبہ افراد عبدالمنان اور سرفراز احمد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تنصیبات پر کارروائیاں کرنے کے لیے شور پارود قلات سے کوئٹہ کیجانب سفر کر رہے ہیں۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ اس اطلاع پر سی ٹی ڈی ٹیم کوئٹہ نے درخشان ناکہ کوئٹہ سبی روڈ کے قریب کارروائی کی جس کے تحت موٹر سائیکل سواروں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے ناکہ بندی کی گئی، کارروائی کے دوران ایک مشکوک موٹر سائیکل سواروں کو رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن انہوں نے جائے وقوعہ سے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم اہلکار انہیں روکنے میں کامیاب ہوگئے جس سے مذکورہ ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

سی ٹی ڈی حکام نے ان افراد سے پانچ عدد دستی بم، 1200 گرام C4 دھماکہ خیز مواد، 2 کلو گرام دیگر دھماکہ خیز مواد، چار عدد الیکٹرک ڈیٹونیٹر، ایک عدد ریموٹ کنٹرول کٹ، ایک عدد الفا فائر سسٹم برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ترجمان سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے دوران ملزمان نے آغا شکیل درانی سمیت خضدار کے کئی حکومتی حمایت یافتہ افراد کو نشانہ بنانے کے منصوبہ بندی کا انکشاف کیا۔

دی بلوچستان پوسٹ کو تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ مذکورہ دونوں افراد عبدالمنان ولد محمد موسیٰ اور سرفراز ولد نیاز سکنہ نوغے خضدار کو گذشتہ مہینے 30 اکتوبر کو فٹبال میچ سے واپسی کے دوران خضدار فیروز آباد سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ دونوں نوجوان میڈیکل اسٹور پر کام کرتے تھے۔

مذکورہ گرفتار افراد کا تعلق جبری لاپتہ رشید اور آصف بلوچ کے خاندان سے ہے۔ اپنے بھائیوں کی بازیابی کے لئے کوشاں سائرہ بلوچ نے ان نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے گذشتہ دنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پہ لکھا میرے دو کزن سرفراز اور منان کو 30 اکتوبر کو خضدار کے علاقہ فیروز آباد میں فٹبال میچ کھیلنے گئے، واپس آتے ہی سیکورٹی فورسز ایف سی کے وردی میں ملبوس اہلکاروں نے انکو حراست میں لیکر نامعلوم مقام منتقل کیا۔

مذکورہ ٹویٹ کو پاکستان کے معروف صحافی حامد امیر نے ری ٹویٹ کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں لکھا کہ بلوچ نوجوانوں کے لئے فٹ بال کھیلنا بھی جرم بنا دیا گیا ہے؟

چار روز قبل کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے قلات کے علاقے منگچر سے بھی ایک نوجوان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم مذکورہ نوجوان کے لواحقین بھی اس کے جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

سی ٹی ڈی بیان کے مطابق قلات سے سی ٹی ڈی نے بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے ایک سہولت کار ولی اللہ لہڑی کو منگوچر قلات روڈ سے گرفتار کر کے اس کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد برآمد کیا۔

تاہم مذکورہ نوجوان کے لواحقین اسکی گرفتاری ظاہر ہونے سے قبل کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ آئے تھے اور انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کیا تھا۔

جبری لاپتہ ولی اللہ لہڑی کے بھائی کا کہنا تھا کہ میرا بھائی 23 سالہ ولی اللہ لہڑی سکنہ خاردان قلات، کالج کا طالبعلم ہے اور بعدازاں قلات بازار میں کراکری کی دکان پر مزدوری کرتا تھا۔ میرے بھائی کو 26 اکتوبر 2022 کو تین بجے کے قریب بغیر نمبر پلیٹ کی دو سرف گاڑیاں آئیں اور تین نامعلوم مسلح افراد نے دکان سے اپنے ہمراہ لیکر جبری لاپتہ کیا۔

 علاوہ ازیں ایک ہفتے کے دوران سی ٹی ڈی نے مستونگ سے دو افراد نوروز اور ظہیر، کوئٹہ سے عبدالواجد اور جان محمد، حب چوکی ساکران روڈ سے دوست محمد اور محمد اسماعیل کو کاروائیوں میں گرفتار کرنے اور اسلحہ و دھماکہ خیز مواد برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

سی ٹی ڈی نے بلوچستان میں اس سے پہلے کارروائیوں میں کئی افراد کے گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے تاہم بعد ازاں وہ پہلے سے لاپتہ افراد کے طور پر شناخت ہوچکے ہیں جبکہ ریڈ بُک میں شامل بعض افراد جبری طور پر لاپتہ افراد ہے جس پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے اعتراضات اٹھائے تھے۔

علاوہ ازیں سی ٹی ڈی کی جانب کئی کاروائیاں جعلی قرار پائے ہیں جن میں پہلے لاپتہ افراد کو قتل کیا گیا۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ خفیہ ادارے سی ٹی ڈی  کو ڈھال بناکر بے گناہ فرزندوں کواغواء و شہید کررہے ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ ایجنسیوں نے اک نئی چال شروع کی ہے لیکن سی ٹی ڈی کا جھوٹ اب واضح ہوچکا ہے جبری گمشدگیوں و خواتین کی اغوا پرریاست کا بیانیہ ہمیشہ جھوٹا رہا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ حکومت فوج کے سامنے بے بس ہے ضیاء لانگو جھوٹ بول کر اپنے آقاوں کی حقِ نمک ادا کررہے ہیں۔