وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ ہمارےکچھ سادہ لوح دوست و ساتھی بلوچستان میں پاکستان فوج کی آئین و عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالییوں بمعہ جنگی جرائم کو قبول و اس پر خاموشی اختیار کرکے الٹا مجرم فوج اور شریکِ جرم برسرِاقتدارسیاسی پارٹیوں و وزرا کو کریڈٹ دے رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا ہے کہ سوال یہ کہ بولان سے 13 خواتین اوربچیوں کو پاکستان کے آئین کی کس شق اور کس عالمی قانون کے تحت آرمی نے ماورائے عدالت اغوا کرکے شدید ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔
ماما قدیر نے کہا کہ بولان آپریشن کے دوران چرواہا محمد غوث ولد افضل خان مری سمیت متعدد چرواہوں کو پاکستان کی آئین کے کس شق اور کونسے عالمی قوانین کےتحت شہید کیا گیا۔ گھر بار و مال مویشی مکمل لوٹ کر دیہاتوں کے دیہات پاکستانی آئین کی کس شق اور کونسے عالمی قوانین کے مطابق جلائے گئے۔
انکا کہنا تھا کہ میرے اپنے ہی دوستوں، برسراقتدار سیاسی پارٹیوں اور وزرا سے گزارش ہیکہ اگر آپ پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی کو روک نہیں سکتے، اگر خوف اورکرسی جانے کی خوف سے فوج کے بلوچستان کے اندر انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر نہیں کرسکتے تو کم ازکم فوج کو فیس سیونگ مت دیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ آپ بچیوں کی بازیابی یابے گناہ فرزندوں کی لاشوں کی حوالگی کو کچھ اس طرح ظاہر کررہے ہیں کہ جیسےآپ نےکوئی کارنامہ عظیم سرانجام دیا ہو۔