شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو چھ سال مکمل، حب میں احتجاج

379

منگل کے روز بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں بلوچ طالبعلم رہنما شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کیخلاف احتجاج کیا گیا۔

لواحقین نے کہا کہ شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کو تربت کے علاقے گورکوپ سے پاکستانی فورسز نے دیگر 20 افراد کے ساتھ غیر قانونی حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا، ایک دو ہفتے بعد دیگر تمام افراد رہا ہو گئے لیکن شبیر بلوچ کی تاحال کوئی خبر نہیں –

شبیر بلوچ کے لواحقین نے آج لسبیلہ پریس کلب حب کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی۔ اس موقع پر لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی والدہ، لاپتہ عبدالرشید اور آصف کی بہن سائرہ بلوچ، لاپتہ محمد اسلم کی ہمشیرہ اور والد سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین بھی ریلی میں شامل تھے۔

ریلی کے شرکا جبری گمشدگی کے شکار اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے شہر کے مرکزی شاہراہ پر مارچ کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ کا کہنا تھا کہ میرے بھائی شبیر بلوچ کی بازیابی کیلئے ہم مسلسل احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، بھوک ہڑتالی کیمپ سمیت اسلام آباد اور کوئٹہ میں دھرنے دے رہے ہیں، متعدد بار صوبائی اور وفاقی وزراء و کمیٹیوں کی یقین دہانیوں کے باوجود ہمیں اپنے بھائی کی کوئی خبر نہیں ملی ہے، گزشتہ سال ہمیں ملک کے وزیر اعظم عمران خان نے ملاقات کرکے بنفس نفیس یہ یقین دہانی کی تھی کہ وہ میرے بھائی سمیت دوسرے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ملک کے مقتدرہ اداروں سے بات کریں گے، ہم نے انصاف کے حصول کیلئے اب تک تمام تمام ذرائع استعمال کیے ، احتجاج کے تمام تر طریقہ کار اپنائے لیکن لگتا ہے اس ریاست ہمیں سننا والا کوئی نہیں ہے –

انہوں نے کہا کہ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی پہ ملکی اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے ریاستی اداروں کو بھی جوابدہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

جبری لاپتہ شبیر بلوچ کے لواحقین نے آج کے احتجاجی مظاہرے کے توسط سے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں ملکی اعلیٰ حکام اور مقتدرہ اداروں سے ایک مرتبہ پھر اپیل کی شبیر بلوچ کو منظر عام پر لا کر انہیں انصاف فراہم کیا جائے، اگر اس پہ کوئی الزام ہے تو اسے ملکی قائم کردہ عدالتوں میں پیش کرکے اس پہ جرم ثابت کریں اور بھلے ہی ان کو سزا دیں، لیکن اس طرح بغیر کسی کے جرم کے سالوں جبری لاپتہ کرکے اذیت دیکر ہمیں درد اور کرب میں مبتلا نا کیا جائے، ہمارے آج کے احتجاج کا مقصد ملکی اداروں سے انصاف کی طلب ہے، ہم بطور اس ریاست کے شہری اس ریاست کے آئین اور قانون کے تحت اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم اسی حق کا مطالبہ کرتے ہیں جو ریاست اپنے ایک شہری کو دینے کا آئینی ذمہ داری رکھتا ہے، کیونکہ کسی ایک فرد کے جبری لاپتہ ہونے سے اس کا پورا خاندان اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پچھلے مہینے کوئٹہ میں گورنر ہاؤس کے سامنے ریڈ زون میں پچاس دنوں تک اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے پر امن احتجاجی دھرنا دیا، ہم نے اپنا احتجاجی دھرنا حکومتی وفاقی کمیٹی کے اس یقین دہانی پہ ختم کیا کہ ہمارے لوگوں کو بازیاب کیا جائے گا، آج اس معاہدے کو ایک مہینہ مکمل ہوا ہے لیکن اب تک ہمیں ہمارے لوگوں کی کوئی خیر خبر نہیں ملی ہے –