زاہدان میں ایک بار پھر مظاہرے

208

مغربی بلوچستان کے علاقے زاہدان میں مظاہرین ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے، جمعے کے روز درجنوں شہری سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے حکومت مخالفت و گذشتہ دنوں قتل ہونے والے مظاہرین کے حق میں نعرے بازی کی-

گذشتہ ماہ ایران میں شروع ہونے والے مظاہرے مغربی بلوچستان کے مختلف شہروں میں بھی دکھائی دیئے مغربی بلوچستان کے مرکزی شہری زاہدان میں مظاہروں کے دوران ایرانی فورسز کی فائرنگ سے درجنوں مظاہرین مارے گئے تھے-

زاہدان کے شہری اس دن کو “سیاہ جمعہ” کے طور پر منا رہے ہیں رپورٹس کے مطابق اس روز سو کے قریب شہری مارے گئے تھیں-

یاد رہے مغربی بلوچستان کے علاقے راسک میں ایرانی فورسز کے ایک اعلیٰ آفیسر کمانڈر کرنل ابراہیم کوچکزئی پر ایک کمسن بچی کو تفتیش کے نام پر حراست میں لینے اور دوران حراست بچی کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جارہا ہے-

مذکورہ واقعہ کے بعد مغربی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، جبکہ 30 ستمبر بروز جمعہ زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت مخالفت ریلی نکالی اس دوران ایرانی سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے درجنوں شہری ہلاک و زخمی ہوگئے-

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مغربی بلوچستان کے علاقے زاہدان میں 30 ستمبر کو ہونے والے واقعے متعلق اپنے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس دوران پرتشدد واقعات کے دوران 82 افراد جانبحق ہوئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل مطابق کہ ایرانی بلوچستان میں 30 ستمبر کو جمعہ کی نماز کے وقت اہل سنت کی مسجد میں ایرانی فورسز کی فائرنگ سے 66 افراد جانبحق اور سینکٹروں زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد مسلسل مظاہروں اور ان پہ سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے باعث مزید 16 افراد جانبحق ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب سیستان و بلوچستان کے گورنر حسین مدرس نے ایرانی میڈیا کو بتایا تھا کہ زاہدان میں جمعے کے روز ہونے والی جھڑپوں میں 19 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے ہیں۔ گورنر کے مطابق ان اعداد و شمار میں فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

مظاہروں کے دوران سیستان اور بلوچستان کے پاسداران انقلاب کے انٹیلی جنس کمانڈر علی موسوی بھی سینے میں ایک گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے اور اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔