خونخوار نظام کے ہاتھوں ڈوبا پاکستان
تحریر: بشیر نیچاری
دی بلوچستان پوسٹ
ماحولیاتی آلودگی کے سبب حالیہ سیلاب نے پاکستان کو شدید متاثر کیا بلوچستان سندھ کے پی کے اور وسیب ڈوب گئے کروڑوں لوگبے گھر ہوئے لاکھوں زخمی اور ہزاروں پانی میں ڈوب کر مر گئے مگر ہمارے میڈیا اور بیورکریسی نے سیلاب کی تباہ کاریوں کو بھرپور چھپانے کی کوشش کی لوگ پانی میں ڈوب کر مرتے رہے مگر کیمرہ کا آنکھ اندھا ہی رہا۔ بیوروکریسی تباہیوں کو اس لیے رپورٹنہیں کر رہا تھا کہ پورا نظام مکمل طور پر درھم برہم ہو کر ناکام ہوا تھا ریاست کی کمک کہیں پہنچ نہیں پا رہا تھا تمام رابطہسڑکیں پانی میں بہہ گئے تھے۔ ان چالیس دنوں میں مسلسل بارش کے دوران نوح کا کشتی کہیں نظر نہیں آیا ریاست ریسکیو کرنےمیں مکمل ناکام رہا ہر طرف پانی ہی پانی تھا لوگوں کے سب جمع پونجی مال مڈی اور جمع شدہ خوراک پانی میں بہہ گئے والدینبچوں کو بھوک پیاس وبائی امرض میں اپنے گود میں دم توڑتے دیکھ کر دعائیں دیتے رہے۔ انسان اتنے مجبور تھے کہ وہ ان حالاتمیں رو نہ سکے بلوچستان کے کالے میدان اور سنگلاخ پہاڑ سندھ اور وسیب کے میدان پہلی بار تاریخ کے بدترین بارش کے پانی کواپنے سینے پر سہتے رہے بارش اور سیلاب نے جو تباہی مچائی اس کا ذمہ دار عالمی ماحولیات کو خراب کرنے والے ممالک ہیں مگر انکاسزا ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
پہلے ہی ہم بدترین معاشی کراہسس سے گزر رہے ہیں حالیہ سیلاب نے معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے سیلاب کے بعد کیصورتحال انتہائی دردناک ہے سیلاب متاثرین کو خوراک کی شدید قلت ہے خیمے نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلےآسمان کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں مختلف وبائی امراض میں مبتلا ہو کر زندگی اور موت کی ایک اور جنگ لڑنے ہر مجبور ہیںمخیر حضرات عالمی امدادی ادارے صرف فوٹو سیشن تک محدود ہیں جھل مگسی بیلہ موسیٰ خیل صحبت پور واشک نوشکی قلعہسیف اللہ کوہلو سمیت بلوچستان کے تمام متاثرہ اضلاع میں ابھی تک بحالی کا کام شروع نہیں ہو سکا ہے کئی لوگوں کی امواتوبائی امراض کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ ملریا ڈائریا کے وباء سے لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں زندگی بچانے والے ادویات ناپید ہو چکےہیں جس کا ذمہ دار ریاست اور عالمی دنیا ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے مگرمعاشی ماہرین کا کہنا ہے پاکستانی معیشت کو ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ نقصانات کا سامنا کر پڑا ہے اس مشکل کے گھڑی میںعالمی دنیا کو جس طرح آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کرنا چاہیے تھا اس طرح کسی نے مدد نہیں۔
کیا پاکستان کو عالمی ماحولیات میں بگاڑ پیدا کرنے والے ممالک کے خلاف عالمی عدالت میں ہرجانے کا کیس کرنا چاہیے تاکہ کسی کےکیے کا سزا کسی دوسرے کو بھگتنا نہیں پڑے وزیر خارجہ پاکستان نے عالمی دنیا سے پاکستان کی تمام عالمی قرضوں کے معافی کامطالبے کے ساتھ مزید امداد کا درخواست کیا ہے اب اقوام عالم کو فراخدلی سے پاکستان کا نہ صرف قرضہ معاف کرے بلکہ سیلابمتاثرین کے بحالی کے لیے مزید امداد فراہم کرے کیونکہ پاکستان عالمی دنیا کو ہر مشکل میں بھر پور سپورٹ کرتا رہا ہے دہشتگردیکی جنگ میں پاکستان نے عالمی دنیا کا ساتھ دے کر اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا ایک لاکھ کے لگ بھگ ہمارے شہری شہید ہوئے آجپاکستان تاریخ کے بدترین آفت کا شکار ہیں کروڑوں انسانوں کے جانوں کو خطرہ لاحق ہے جو خطرات کا سامنا آج پاکستانی عوام کررہے ہیں یہ عالمی دنیا کے پیداہ کردہ مصیبتیں ہیں جن کا خمیازہ پاکستانی عوام بھگت رہی ہے اب عالمی دنیا مدد کرنے کے بجائے اینجی اوز کے ذریعے مصیبت ذدہ انسانوں کے دکھوں کا کاروبار شروع کرنے جا رہا ہے عالمی سرمایہ دارانہ نظام اب خونخور بھیڑیا بنگیا ہے جنگوں سیلابوں اور زلزلوں کی تباہی بربادی سے ان کا بقا ہے وگرنہ یہ خونی نظام کب کا زمین بوس ہو چکا ہوتا۔
انسانیت کا معراج سوشل ازم ہے اب ان سیلاب زلزلے اور بمبوں کے زخموں نے طبقاتی جنگ کو شدت سے تیزی کے طرف دھکیل دیا ہےآنے والے دھائیوں میں سرمایہ داری زمین بوس ہونے کی طرف جارہا ہے ایسے میں عالمی مزدور تحریک کو منظم کرنے میں لیفٹیسٹتنظیموں کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا پاکستان میں پیپلز پارٹی کو اپنے بنیادی منشور کے طرف لوٹنا پڑیگا اب مزید مصالحتیں پارٹی کیوجود کے لیے خطرہ بن چکے ہیں بلاول بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرہ کو عملی جامعہ پہنانا ہو گا پھرپاکستان میں سرمایہ انسانیت کے بقاء اور آسائشوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے پھر سیلابوں زلزلوں کا جدید سائنسی آلاتکے ساتھ مقابلہ کیا جا سکے گا۔
پاکستان کی حکومت عالمی غلامی کے بجائے عالمی دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تمام عالمی قرضوں کو معاف کرنے اور سیلابمتاثرین کی بحالی کا مطالبہ دہرائے اگر عالمی مدد پاکستانیوں کا مطالبے کو نظر انداز کرے تب عالمی عدالت انصاف میں ان تمامممالک کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ کرے تمام مالیاتی اداروں کے قرضوں کو قومیائے جائیں تاکہ دنیا بھر کے انسانوں کو ایسے بے موتمارنے کا سبب بننے والے ممالک کو ماحولیات کو مزید بگاڑنے سے بچایا جا سکے پاکستان میں سردیوں کا سیزن شروع ہو چکا ہےسیلاب متاثرین بے سروسامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے بےیارومددگا کسی مسیع کے انتظار میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہےہیں حکومت کو متاثرین کی بحالی کے لیے دنیا سے اپیل کرنے کے بجائے دباو ڈالنا چائیے جو عذاب ہم پر مسلط ہوا ہے وہ عالمی سرمایہداری کے عذاب ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں