بلوچستان میں مزدور دشمنی پر مبنی سوشل سیکورٹی قوانین میں ترامیم کی جائیں۔ لیبر یونین

230

بلوچستان لیبر فیڈریشن اور آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے رہنماؤں صدر خان زمان خان، میر زیب شاہوانی، سیف اللہ ترین حبیب اللہ لانگو، حاجی غلام دستگیر اور دیگر مزدور رہنماؤں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں نئے بننے والے لیبر قوانین کو لاگو ہونے سے قبل ہی متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا محنت کش طبقہ ملازمین اور خاص طور سے صوبے کے صنعتی اداروں، یونٹوں کے مزدور جو کہ پہلے سے لیبر قوانین رائج نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات اور مسائل سے دوچار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جائز حقوق سے محروم چلے آرہے تھے انہیں بلوچستان انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ (بی آئی آر اے) 2022 ءمیں محکمہ لیبر بلوچستان (صوبائی حکومت) اور انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن آئی ایل او کے حکام نے بلوچستان کے بڑی و نمائندہ مزدور فیڈریشنوں کو اعتماد میں لئے بغیر اپنی پسند کی ایسی شقوں اور نکات کو شامل کیا جس پر کسی تنظیم کو اتفاق نہیں تھا اور نہ ہے اور اس کے علاوہ سوشل سیکورٹی قوانین میں ضروری ترامیم کرانے کیلئے ان نکات پر کوئی بحث نہیں کرائی گئی جس پر بلوچستان کی مزدور قیادت اتفاق رائے نہیں رکھتی نہ ایسی کوئی اضافی شق تسلیم کی جائے گی۔

مزدور رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کی یہ مناپلی ہے کہ جون 2022ءمیں اسمبلی سے پاس ہونے والے لیبر لا کو ایک عرصہ تک خفیہ دستاویز کے طور پر چھپا کر رکھا گیا مگر بلوچستان کے محنت کش طبقہ ملازمین و مزدوروں کو سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی طرز پر ملازمین و صنعتی مزدوروں کو ملنے والے حقوق سے کب تک محروم رکھا جاسکتا ہے۔

“محکمہ لیبر بلوچستان کی تنگ نظری اور بلوچستان کے لوگوں کو ہر شعبے میں محکوم رکھنے کی سازش آخر سامنے آنی تھی، اس تنگ نظری کی واضح مثال بلوچستان میں ٹریڈ یونین پر جبری پابندی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں، مزدوروں کی جانب سے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے دروازوں پر ایڑیاں رگڑنے کے باوجود بھی انصاف نہیں مل رہا، اس ساری صورتحال کی ذمہ دار بلوچستان حکومت اور اسکا محکمہ لیبر اور آئی ایل او ہے، جوآج بھی نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے ملازمین اور غریب محنت کش طبقے کو اچھے اور سہل لیبر قوانین ملیں جو انکے جائز بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرسکیں، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بلوچستان کا محکمہ لیبر ہے۔ بلوچستان انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ (بی آئی آر اے) 2022ءمیں بلوچستان حکومت اور آئی ایل او نے ایسے نکات شامل کیے جس پر کوئی بھی متفق نہیں، اس کے علاوہ بلوچستان کے غریب محنت کشوں کو دلانے کیلئے سوشل سیکورٹی قوانین میں ترامیم کرانے کیلئے ان نکات پر کوئی بحث نہیں کرائی گئی، اس حوالے سے آئی ایل او کے حکام نے بحث کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر محکمہ لیبر بلوچستان کے حکام کی مزدور دشمنی کا ثبوت ہے اور یہ بلوچستان کے ہزاروں صنعتی اور دیگر چھوٹے اداروں کے مزدوروں و ملازمین کے جائز حقوق پر شب خون مارنے کے مترادف ہے جس کی اجازت ہر گز نہیں دی جائے گی۔ “

مزدور رہنماؤں نے وزیراعلیٰ بلوچستان، چیف سیکرٹری، سیکرٹری لیبر سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ (بی آئی آر اے) 2022 ءمیں صوبے کی حقیقی فیڈریشنوں کی مشاورت کے بغیر شامل کی جانیوالی مزدور دشمن شقوں کو فوری ہذف کیا جائے بصورت دیگر بلوچستان کی بڑی مزدورتنظیمیں اپنے جائز حق اور مطالبات کیلئے زبردست احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔