اعلیٰ تعلیمی ادارے اور مادر ی زبانوں کی اہمیت ۔ عبداللہ دشتی

513

اعلیٰ تعلیمی ادارے اور مادر ی زبانوں کی اہمیت

تحریر: عبداللہ دشتی

دی بلوچستان پوسٹ

معاشرے میں تعلیم کی اہمیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ تعلیم ہی واحد ذریعہ ہے جس سے قومیں مستقبل کا تعین کرسکتے ہیں۔ معاشرے میں تعلیم ہی واحد ذریعہ ہے جسے عام کرنے سے ترقی آ سکتی ہے اور افراد کی زندگیوں میں خوشحالی اور بہتری آئے گی۔ انسان کو اپنی اندر جھانکنے اور پرکھنے کے لیے تعلیم ہی وہ راستہ مہیّا کرتا ہے جس سے وہ اپنی اندرونی اور خدا داد تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کی سات سمندر عبور کرسکتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی دنیا کے ہر معاشرے میں اہمیت ہوتی ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ہی وہ لوگ پیدا ہوتے ہیں جو معاشرےکی بہتر سے بہترین ترقی کے لیے اپنی شب و روز کا قربانی دیتے ہیں۔معاشرےمیں تعلیمی ترقی اور معاشی پہیے کو دوام رکھنے کے لیے یہ لازم ہوتا ہے کہ بچوں میں تعلیم کا ایسا نظام متعارف کیا جائے جس سے وہ تعلیم کو سو فیصد سمجھ سکیں۔ اِس سے یہ ہوگا کہ وہ مستقبل میں کسی کی محتاجی میں زندگی گزارنے کی بجائے اپنی ہی صلاحیتوں اور قابلیت کے مطابق اپنا مقام بنائیں گے۔

تعلیمی ماہرین کے مطابق بچے کو بنیادی تعلیم ایک ایسے زبان میں دی جائے جس سے وہ اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں دشواریاں اور مشکلات محسوس نہ کرے۔ آج دنیا کی بیشتر ممالک اور عالمی اداروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مادری زبان ہی بنیادی تعلیم کا واحد ذریعہ ہے جو ہر بچے کا بنیادی حق ہے،جس کے بعد بچے جب اعلیٰ تعلیمی درسگاؤں میں پُہنچتے ہیں تو وہ بجائے یہ کہ زہنی اضطراف میں مبتلا ہو جائیں اُن کی توجّہ اپنی بہترین تعلیم ہی پر ہوگا اور معاشرے کے لیے اچھےمستقبل کی تخلیق میں نمایاں کردار ادا کرسکیں گے۔جدید علوم کو اچھی طرح سمجھنا اور اِسے بروِکار لانے کے لیے معاشرے میں تعلیم کو عام فہم بنانے کی ضرورت پر دنیا میں کافی کام ہوچُکا ہے، جس پر متعدد تحقیقی رپورٹس بھی سامنے آ چُکے ہیں۔

اب ہم اس دورائے پر کیوں کھڑے ہیں جہاں اپنی زبان کی بجائے کسی اور کی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کو فخر سمجھتے ہیں۔ اِس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہم برٹش امپائر کے کالونی تھے ، لیکن اب تو نہیں ہیں ناں؟ تو پھر کیوں اُن کی زبان یا اُن کی عطا کردہ کوئی اور زبان جس کا ہمارے جغرافیہ سے کوئی تعلق ہی نہیں اُسی کو ذریعہِ تعلیم ہی رکھیں؟ اب تو دنیا گلوبل ویلیج بن چُکا ہے جہاں ہر وہ چیز جو کل ہماری دسترس میں نہیں تھا اب ایک کِلک پر آگیا ہے۔کسی بھی علم کو منٹوں میں ہی کسے دوسری زبان سے اپنی ہی زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ پورے یورپ میں کوئی بھی ملک دوسرے کی زبان پڑھانے یا پڑھنے پر راضی نہیں ہے ہر ملک کا اپنا زبان ہے حتیٰ کہ انگلینڈ اور امریکہ کے لوگ جہاں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان انگریزی ہے لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے کی انگریزی کو نہیں اپناتے ، لیکن جو بھی ہو جیسا بھی ہو انگریزی زبان جاننا ہم نے فخر کا باعث بنا رکھا ہے جس طرح کہ ایک دو صدی پہلے اس خطے میں فارسی تھا۔ اب وہ دنیا بدل چُکا ہے۔ہمارے پاس دنیاکے ایسے کافی سارے مثالیں اور تجربات موجود ہیں جن سے ہم مستفید ہوسکتے ہیں، اپنی تعلیمی معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں جیسا کہ ہم انڈونیشیا کا مثال لیں جو تیزی سے ترقی کرتا جا رہا تھا جب اُنہوں نے اپنی تعلیمی زبان میں انگریزی کا اضافہ کیا۔ ویسے بھی انڈونیشیا میں چار سو سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں،لیکن اُنہوں نے اس سے پہلے اپنے ملک میں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان کو ہی ذریعہِ تعلیم بنایا تھا اور باقی زبانوں کو بھی فوقیت دی تھی جب انہوں نے انگریزی کو ذریعہِ تعلیم بنایا اکثریتی زبانوں کو پس پُشت ڈالنا شروع کیا تو آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ انڈونیشیا پھرسے پیچھے کی طرف جانے لگا۔ اور ان کی معیشت کمزور ہوتا گیا جی ڈی پی گرتا چلا گیا۔ دوسری طرف ہم ایتھوپیا کا مثال لیں جہاں کے لوگوں کو ڈیڈ مین یعنی مرے ہوئے انسان کہا جاتا تھا، انہوں نے جب اجنبی زبانوں کوایک طرف رکھ کہ اپنی ہی ملک کی سولہ سے زیادہ مادری زبانوں کو تعلیم کا ذریعہ بنایا تو کچھ ہی سالوں میں چائنا جیساترقی یافتہ ملک ایتھوپیا کے قدموں میں پڑگیا کہ خدا کے لیے ہمیں موقع دیں تاکہ ہم بھی ایتھوپیا میں سرمایہ کاری کرسکیں۔ جہاں ایتھوپیا کو یہ موقع ملا کہ وہ چائنا کی شرائط پر نہیں بلکہ اپنی شرائط چائنا پر لاگو کرے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کے حکمران دنیا کو یہ منّت و سماجت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آپ کے جو شرائط ہیں مان لیے بس ہمارے ملک میں آ کر سرمایہ کاری کرو۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی حقیقی زبانوں کو ذریعہِ تعلیم رکھنے میں کوتائیاں اپنائی ہیں ۔ یا بچوں کے لیے ہم نے جس زبان کا انتخاب کیا ہے وہ غلط ہے۔

اب اس سارے معاملے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہی حل کر سکتے ہیں، اس کے لیے کوئی فوجی جرنیل ، بی اے پاس سی ایس ایس یا پی سی ایس کا رٹہ لگا کے آنے والے بیوروکریٹ یا آفسر نہیں۔ کیونکہ اُنہی کے پاس اس زہنی اضطراب کو حل کرنےکا آسان فارمولہ ہی موجود ہوگا۔ پھر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کہاں سے آتے ہیں تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں یعنی جامعات سے۔ تعلیمی اسکالرزاور مادری زبانوں کے اسکالرز کے پاس موجود اس فارمولے کے تحت ہی آپ اس بنیادی ناکارہ تعلیمی نظام کو بدلنے میں موثر اور جامعہ مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ معاشی ترقی کا راز بھی اِسی میں ہی ہے جس سے ترقی کا پہیہ چلنے لگتا ہے، عام فرد کا زِندگی بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ لوگ اچھے اور بُرے کا تمیز آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔اچھے اور بُرے کی تمیز سیکھنے سے ہمارے افسران میں خود غرضی میں کمی اور اجتماعی مفادات میں دیان بڑھ جاتا ہے۔ جس سے کرپشن جیسے ناسور خود بخود ہی ختم ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ ہرکوئی افسر بننے کا شوقین ہے وہ اس لیے کہ اچھی طرح سے کرپشن کرکے اپنے لیے بینک بیلنس بنا سکے، کرپشن کے پیسوں کو وہ اپنے لیے اچھا مستقبل کا ضمانت سمجھتا ہے، یہ ایک خطرناک رُجحان ہے اس کا سب سے بڑی وجہ یہی تعلیمی شعور کی کمی ہے۔ تعلیمی شعور کی کمی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے جو تعلیم حاصل کیا ہے وہ سوفیصد اُن کے دماغ تک نہیں پُہنچا ہے، رَٹہ کا تعلیم ہے اور وہ تعلیم کسی اور کی زبان میں تھی، جسے سمجھنے کی بجائے رَٹّہ لگانا پڑا۔ جس نے افسر کی زہن میں اپنائیت کا مادہ ہی ختم کر ڈالا ہے۔اُس کا شعوری لیول کسی بھی طرح قومی خدمت کے لیے فِٹ ہی نہیں ہے۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شعور یافتہ لوگ پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیم ہر فرد کی پُہنچ میں ہی ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئیے جائیں جہاں ہر شخص اپنی گھر کی دہلیز پر اعلیٰ تعلیم سے فیضیاب ہوسکے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے خدمات سے مستفید ہونے کا سلیقہ آنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ تعلیمی سفر کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ شعوری سفر کو بھی مکمل کرنا ہوگا۔ شعوری سفر کو مکمل کرنے کے لیے یہ لازمی نہیں کہ کسی افسر کو جانچنے کے لیےرَٹّہ کا اندازہ لگائیں کہ اُس نے کس حدتک رَٹہ لگا کہ آیا ہے اور وہ چیزوں کو رَٹہ کی بنیاد پر کس حد تک حل کرسکتا ہے۔ بلکہ یہ کہ اُس کا شعوری امتحان ہونا چائیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کس حد تک اندر کی دنیا میں صادق اور امین ہے۔ اُس کے لیے ایسے مواقع پیدا کی جائیں تاکہ وہاں اُس کی تخلیقی اور تحقیقی شعور کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لیے اُس کی لگن اور ویژن کا اندازہ بھی لگایا جا سکے۔ ناصرف یہ کہ پتہ نہیں وہ کئی سالوں سے اس تگ و دو میں تا کہ کہیں نا کہیں کوئی عہدہ ملے اور اپنا ہاتھ صاف کرکے باقی زندگی آرام سے گزار سکوں۔ ہماری دماغوں تک تعلیم پہنچنے کے راستے معدود کئے گئے ہیں جس سے ہمارا مکمل ہونا ناممکن ہوچکا ہے اور یہ چیز نسل درنسل مذید معدومیت کی طرف جا رہا ہے۔ اس سے معاشرے سدریں گے نہیں بلکیں مذیت بدامنی اور انتشار کی طرف جائیں گے۔

اگر بات بلوچستان تک آ جائے تو بلوچستان میں ویسے بھی ایسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کمی ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی شدّت سے محسوس ہوتا ہے۔ چاہے جس شعبے میں ہو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بہت کم ملیں گے۔ اگر ملیں گے بھی تو بیرون صوبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرچُکے ہیں۔ اس لیے ضروری اس امر کی ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں سارے فنی، سائنسی اور معاشرتی علوم کے شعبہ جات کھولے جائیں۔ جہاں جہاں یونیورسٹیز بنائے گئے ہیں وہاں فنی اور سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ معاشرتی علوم میں لسانی تعلیم یعنی مادری زبانوں کے شعبہ جات کا اضافہ کرنا لازمی ہے۔ تاکہ مادری زبانوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ پیدا ہوسکیں اور اُن کی مدد سے ہی باقی سارے علوم کو مادری زبانوں میں آسان اور عام فہم بنانے میں کردار ادا کرسکیں۔

بلوچستان میں دس کے قریب یونیورسٹیز ہیں۔ لیکن اِن یونیورسٹیوں میں صرف دو ہی یونیورسٹی ایسے ہیں جہاں مادری زبانوں کی طرف محدود پیمانے پر توجّہ دی گئی ہے لیکن یہاں بھی مادری زبانوں کے حوالے سے دئیے گئے سہولیات ناکافی ہیں۔ جن سے مادری زبانوں کی تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہو پارہا ہے۔ ضروری ہے کہ بلوچستان کے سارے اضلاع میں ایک ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ یعنی یونیورسٹی ہونا لازمی ہے اور ان یونیورسٹیز میں مادری زبانوں کے لیے الگ الگ انسٹیٹیوٹ ہونا بھی وقت کا تقاضہ ہے۔ دنیا میں یہ بحث کافی آگے جاچُکا ہے کہ کہیں کوئی مادری زبان نظرانداز نہ ہو۔ لیکن ہم دانستہ طور پر اپنی مادری زبانوں کو نظرانداز کرنے میں تُلے ہوئے ہیں۔ یہاں ہمیں کسی بیرونی دشمن کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ وہ آ کر ہمارے مادری زبانوں کو ختم کرنے میں اپنے پنجے گھاڑ دے۔ یہاں ہم اپنی پسماندہ زہنی نشونما اور تعلیمی شعور کی کمی کی وجہ سے خود ہی اپنی مادری زبانوں کے دشمن بن بیٹھے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس زہنی پسماندگی اور تعلیمی شعور کی کمی کو جان کر اور مان کر آگے بڑھنے کے لیے وسیع سوچ کو اپنانا پڑے گا۔

حال ہی میں مکران کے شہرپنجگور میں نئی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان ہوچُکا ہے۔ جہاں یہ چے مگویاں چل رہی ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ چاہ رہا ہے کہ جامعہ میں مادری زبانوں کا ایک شعبہ ہوگا۔ جو بلوچی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے کام کرے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناکافی ہے۔ بلوچی زبان سمیت بلوچستان میں موجود ساری زبانیں بشمول براہوئی اور پشتو کے، انہیں ایک شعبہ یا ایک انسٹیٹیوٹ کی نہیں بلکہ الگ الگ یونیورسٹیز ہونے کی ضرورت ہے ۔ اور اُس یونیورسٹی میں اُسی زبان کے مختلف فیکلٹی اور شعبہ جات ہونے چاہیں۔ تحقیقی اور تخلیقی سرگرمیاں عروج پر ہونے چاہیں۔ ہم ایک انتہائی تاریک ماضی سے گزر چُکے ہیں اور ہماری زبانوں نے کافی کھویا ہے۔ اگر یہ نہیں ہوسکتا تو بلوچی میں ایک معاورہ ہے کہ ’’کور یں چماں پِٹّے اَرس باز اِنت‘‘ معنیٰ یہ کہ نابینا آنکھوں میں آنسو نہیں آتا، جب ایک قطرہ ٹپک گیا تو یہی کافی ہے۔ مطلب یہ کہ بہت کُچھ نہ ہونے سے کُچھ ہونا بہترہے۔ یعنی اگر پنجگور کے مکران یونیورسٹی انتظامیہ اگر اس بات پر راضی ہے کہ وہ وہاں بلوچی زبان کے لیے ایک کارنر کا ابتداء کریں گے، جب تک یونیورسٹی نہیں ہےاُس وقت تک ایک شعبہ ہی کافی ہے۔اِسی طرح یونیورسٹی آف تربت اور یونیورسٹی آف مکران میں براہوئی زبان کے لیے اگر شعبہ کا ابتداء نہیں کرسکتے تو کم از کم وہاں پہ براہوئی کے سرٹیفکیٹ کورسز کا ابتداء کریں جس سے بعد میں شعبہ جات کے لیے بھی راہیں کُھل سکتے ہیں۔اس سے یہ ہوگا کہ مکران کے لوگ براہوئی زبان کے بارے میں جان سکیں گے۔ اِسی طرح دوسرے اضلاع میں یونیورسٹیاں قائم کی جائیں جو مختلف علوم کے ہوں اور وہاں ہر علاقے میں جو جو زبان بولی جار رہی ہیں کم از کم اُن علاقوں کے یونیورسٹیوں میں انسٹرکشن لینگویج اُسی علاقے کا زبان ہونا چائیے۔

اِسی طرح خضدار یونیورسٹی اور لسبیلہ یونیورسٹی میں بھی بلوچی اور براہوئی زبان کے لیے انسٹیٹیوٹ یا شعبہ جات کا ابتداء کریں تاکہ یہاں ہزاروں سال وجود رکھنے والی زبانیں معدومیت سے بچ کر اعلیٰ تعلیمی معیار کی زبانیں بن سکیں۔ میں ایک بات یہاں یہ بھی واضع کروں کہ مادری زبانیں جو ہماری ماں بولی ہیں ، جو ہمیں ماں سے محبت کا درس دیتے ہیں ہم اِس محبت کو ٹھیس پہنچانےکا ذریعہ نہ بنیں اور نہ ہی کوئی ایسا اقدام اُٹھائیں جس سے کسی فرد کی دل آزاری ہو یا کسی کو یہ محسوس ہو کہ اُس کی ماں بولی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اُس کے لیے باعث شرمندگی ہے۔ ہماری ماں بولی بلوچی اور براہوئی کے لیے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سنجیدگی اور محبت سے آگے بڑھیں نا یہ کہ ذاتی بُغض، حسد ، کستہ و کینہ سے اپنی ماں بولی کےساتھ حملہ آوَر ہوجائیں بلکہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی مادری زبانوں کے ساتھ اپنا قومی فریضہ انجام دیں۔ تاکہ کل آنے والی نسلیں ہماری ریکارڈ اُٹھا کہ ہمیں یہ تُہمت نہ لگاہیں کہ ہم اپنی ہی مادری زبانوں کے لیے کس حد تک میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرتے رہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مکران یونیورسٹی میں اِس شعبہ کا ابتداء مادری زبان سے محبت اور لگن کا ایک مثال ہوسکتا ہے۔جس طرح ماضی میں یونیورسٹی آف بلوچستان ہی واحد جامعہ تھا جہاں مادری زبانوں میں اعلیٰ تعلیم کا ابتداء کیا گیا ، لیکن وقت گزرنے کےساتھ انہی شعبوں میں اساتذا ءکی تعیناتیوں میں ذاتی پسند و ناپسند، سیاسی سفارشات کو ملوظ خاطر رکھ کر بھرتی کی گئیں جس سے ایک تو میرٹ کی پامالی ہوئی دوسری قابل ، ہونہار اور مادری زبانوں سے لگن رکھنے والے نوجوانوں کی دل آزاری اور حوصلہ شِکنی ہوئی۔ جب دوہزار چودہ میں یونیورسٹی آف تربت بنا تو وہاں بھی تعیناتیوں میں میرٹ کے ساتھ ساتھ میرٹ کے برعکس ذاتی پسند و ناپسند کو بھی تعیناتی کا حصّہ بنایا۔ اس کے بعد یہی کچھ عارضی تعیناتیوں میں ہوتا رہا اور دسمبر 2021 میں دیگر شعبہ جات کے ساتھ ساتھ مادری زبان کا شعبہ میں مستقل تعیناتیاں بھی متنازعہ رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ مکران یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات بشمول مادری زبان ایسی نادیدہ حرکات و سکنات کابوجھ اپنے سر پر نہیں رکھے گا۔کیوں کہ اس طریقہ کار میں جو لوگ گزر کے آئیں گے وہ تخلیقی اور تخلیقی صلاحیتوں سے ہاری اساتذا ہونگے جو اچھے اور بُرے کی تمیز کی بجائے جی حضوری پر ہی وقت گزاریں گے جو اعلیٰ تعلیمی نظام پر بہت بڑا قدغن ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں