کوئٹہ ریڈ زون دھرنا پاکستانی وزیر داخلہ سے مذاکرات کے بعد ختم

435

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ریڈ زون میں گورنر ہاؤس کے سامنے جبری گمشدگیوں کے شکار بلوچ سیاسی کارکنوں کے لواحقین کا دھرنا آج 50 ویں روز پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سے مذاکرات کے بعد ختم کردیا گیا-

رواں سال کے جولائی میں زیارت میں زیر حراست لاپتہ افراد کی ایک جعلی مقابلے میں قتل کے خلاف لاپتہ افراد کی لواحقین نے شہر کے ریڈ زون میں دھرنا دیتے ہوئے اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ زیارت واقعے کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن قائم کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین کو یقین دہانی کرائی جائے کہ آج کے بعد کسی کو جعلی مقابلے میں نہیں مارا جائے گا۔

تاہم حکومتی سطح پر کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے دھرنا پچاس دنوں سے جاری رہا اور اس دوران سخت بارشوں کی وجہ سے لواحقین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور کئی لواحقین بیمار رہیں ۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدہ افراد کی مائیں اور دیگر رشتہ داروں نے دھرنے میں شرکت کرکے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کی اپیل کی۔

تاہم آج پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے دھرنا میں آکر لواحقین سے ملاقات کی اور انہیں دھرنا ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا اس حکومتی وفد بلوچستان نیشنل پارٹی اور باپ کے وزرا بھی شامل تھے۔

اس موقع پر لواحقین کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مطالبات سادہ ہیں کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے لوگوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو عدالتوں میں لاکر پیش کیا جائے۔ اگر آپ کو اپنی عدالتوں پر اعتبار نہیں تو ہم کہاں جائیں؟

انکا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ یہاں پر لاپتہ افراد کی مائیں بہنیں بیٹھی ہیں ان کو یقین دلایا جائے کہ ان کے پیاروں کی لاشیں نہیں پھینکی جائیں گی۔

لاپتہ افراد کی لواحقین نے حکومتی وفد کی یقین دہانی پر اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تو آئندہ سخت ترین احتجاج کا راستہ اپنایا جائے گا۔