پاکستان کے سب سے بڑے بینک، حبیب بینک لمیٹڈ کو امریکا میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے ایک مقدمے میں ‘ثانوی ذمہ داریوں’ کے الزامات کا سامنا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادرے ‘بلوم برگ’ کی رپورٹ کے مطابق مدعی نے حبیب بینک لمیٹڈ پر القاعدہ کی دہشت گردی میں معاونت اور اسکی حوصلہ افزائی اور ان حملوں کی سازش میں اس کا ساتھ دینے کا الزام لگایا تھا جن میں 370 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔
جج لورنا جی شوفیلڈ نے ریمارکس دیے کہ بینک کو ایک ایسے فریق کے طور پر جسٹس اگینسٹ اسپانسرز آف ٹیررازم ایکٹ کے تحتلائبیلٹیز کا سامنا ہے جو دانستہ طور پر خاطر خواہ مدد فراہم کرے، یا ایسے شخص کے طور پر الزامات کا سامنا ہے جو عالمی دہشتگردی کی ایسی حرکت کرنے والے شخص کے ساتھ سازش کرتا ہے۔
بلوم برگ کی رپورٹ میں جج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تین مقدمات میں مدعی نے ‘کافی حد تک’ الزام لگایا کہ حملوں کیمنصوبہ بندی ‘غیر ملکی دہشت گرد تنظیم’ جیسے القاعدہ، لشکر طیبہ، جیش محمد، افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک اور تحریک طالبانپاکستان نے کی تھی۔
جج نے کہا کہ مدعی کافی حد تک الزام لگاتے ہیں کہ بینک جانتا تھا کہ اس کے صارفین القاعدہ کی دہشت گردی کی اس مہم سےجڑے ہوئے تھے جو براہ راست اور پراکسی کے ذریعے چلائی گئی جو کہ عام آگاہی کا الزام لگانے کے لیے کافی ہے۔
جج نے کہا کہ شکایات سے یہ بھی سامنے آتا ہے کہ بینک نے جان بوجھ کر اور مناسب حد تک القاعدہ اور اس کی پراکسیز کو عائدکردہ پابندیوں سے بچنے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے میں مدد دی جو کہ ‘جان کر مدد کرنے’ کی ضرورت کو پورا کرتیہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جج لورنا جی شوفیلڈ نے کہا کہ الزامات یہ دکھانے کے لیے کافی ہیں کہ حبیب بینک لمیٹڈ حملوں کیسازش میں شامل ہوا، تاہم جج نے مدعی کے ‘بنیادی ذمہ داری’ کے دعووں کو مسترد کردیا کیونکہ ایچ بی ایل کی جانب سے فراہمکردہ مبینہ بینکنگ سروسز میں سے کوئی بھی ‘بذات خود عالمی دہشت گردی کی کارروائیاں’ نہیں تھیں۔
اس سے قبل 2017 میں ایچ بی ایل نے 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی جو کہ کسی بھیپاکستانی بینک پر عائد کردہ سب سے بڑا جرمانہ تھا، ایچ بی ایل پر یہ جرمانہ نیو یارک ریگولیٹری کے مختلف قواعد و ضوابط کیخلاف ورزی کی وجہ سے عائد کیا گیا۔
ایچ بی ایل نے نیویارک میں برانچ چلانے کا اپنا لائسنس حوالے کرنے اور وہاں اپنا آپریشن بند کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا، یہ برانچ1978 سے کام کر رہی تھی۔
اس وقت سخت الفاظ پر مشتمل جاری کردہ بیان میں ڈپارٹمنٹ آف فنانشل سروسز نیویارک اسٹیٹ نے بینک کو کڑی تنقید کا نشانہبنایا تھا۔
جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ڈی ایف ایس، حبیب بینک لمیٹڈ کو فنانشل سروسز انڈسٹری کی ساکھ اور ہماری قوم کی حفاظت کوخطرے میں ڈالنے کے لیے جوابدہ ہوئے بغیر امریکا سے چھپنے نہیں دے گا۔
ایچ بی ایل کو 2007 سے 2017 کے درمیان مبینہ طور پر کی گئیں 53 الگ الگ خلاف ورزیوں پر ڈی ایف ایس کی جانب سےانفورسمنٹ ایکشن کا نشانہ بنایا گیا تھا۔