وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4765 دن ہوگئے ہیں، اظہار یکجہتی کرنےوالوں میں کوہ سلیمان سے سٹوڈنٹس کا ایک وفد جن میں لطیف بلوچ، صدام بلوچ، اسفند جان بلوچ اور سلیم جان بلوچ شامل تھے۔
وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ پرامن جدوجہد اپنے پیاروں کی بازیابی کےلئے اپنے تاریخی تسلسل کے ساتھ آج عروج پر ہے، پاکستانی ریاست اپنی شکست خوردگی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر انتہائی گھناؤنے طریقے سے انسانیت سوزتشدد پر اتر آیا ہے پچاس ہزار سے زائد بلوچوں کو لاپتہ کرکے عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنارہی ہے 20 ہزار سے زائد بلوچ سیاسی کارکنوں دانشوروں طلباء ڈاکٹر وکلا کو جبری اغواء اور جبری لاپتہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا گیا لاکھوں بلوچوں کو فوجی آپریشن کے ذریعے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ہے اور آپریشن کو مزید وسعت دی جارہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مسلسل جبر کے باوجود پاکستانی نام و نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹیز، میڈیا اور نام نہاد آزاد عدلیہ کے کانوں کو جوں تک نہیں رینگتی، مگر بلوچ فرزندوں کے مقدس لہو نے عالمی برادری کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بلوچ کی آواز سنیں اس لیے عالمی برادری نے بلوچ قوم کی اس آواز پر اس نام نہاد جمہوریہ ریاست کو انتہائی سخت نوٹس جاری کردی ہے بلوچ وطن کے فرزندوں کی عظیم قربانیوں کی بدولت بلوچ پرامن جدوجہد فرزندوں کی بازیابی کا سورج اپنی تمام تر شادمانی سے طلوع ہوگا۔
ماماقدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ہم اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان کی مزید کہا کہ ہم اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان کی ریاستی درندگی بربریت دہشت گردی اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں اور بلوچ نسل کشی شہری آبادیوں پر بمباریوں اغوا نما گرفتاریوں جبری گمشدگیوں مسخ شدہ لاشوں کی برآمد گی کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور پاکستان کی امداد فوراً روکے کیونکہ وہ عالمی دنیا سے بھیک مانگتا پھر رہا ہے اور اسی بھیک کو ریاست اپنی بھوک مٹانے کےلیے بلوچستان کی کمزور عوام کے خلاف بمباری کے طورپر استعمال کررہا ہے۔