حانی بلوچ دھرتی کا ماہِ تمام ہے ۔ محمد خان داؤد

162

حانی بلوچ دھرتی کا ماہِ تمام ہے

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ بلوچستان میں ایک نیا وعدہ نئے اعتبار کے جیسے نمودار ہوئی ہے۔ وہ سب رنگ ہے، وہ سب رنگ سانول ہے۔ جب بلوچستان اسے دیکھتا ہے تو بلوچ دھرتی کی آنکھیں اعتبار کے رنگ سے بھر جا تی ہیں۔اور دھرتی آگے بڑھ کر اسے سرگوشیوں میں کہتی ہے ”ہاں تم ہو!تمہیں ہو نیا وعدہ نیا یقین۔“

وہ کونج ہے بلوچ دھرتی پہ اُڑتی کونج۔ اپنے ولر سے بچھڑی کونج!وہ کونجوں کی صدا ہے جو ”کڈھن کُر لاھیندیون!“جیسی ہے۔جو وشال آکاش پہ اُڑتی جاتی ہیں کُر لاتی جاتی ہیں اور ان کی صداؤں کی صدا زمیں پر سنائی دیتی ہیں۔وہ ایسی کونج ہے جس کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
”کونج بہ کائی گونج پریان ء جی!“
وہ پرین ء کے مُرک جیسی ہے!
وہ برستی بارشوں جیسی ہے
وہ تھر پہ گرتی اوس جیسی ہے
وہ موروں کے رقص جیسی ہے
وہ کارونجھر کا اعتبار ہے
جس پر مور کھڑے ہوکر پر پھیلاتے ہیں
اور رقص کرتے ہیں
وہ اُمید ہے،وہ اُمید کی شہزادی ہے
وہ‘‘پرنسس آف ہوپ‘‘ہے
وہ ایسا بھجن ہے جسے یا تو دھرتی گاتی ہے یا زخمی دل!
وہ انقلاب کے کتاب کے سبق کا پہلا ورق ہے
جس پر لکھا ہے
”محبت زندہ باد!“
اگر اس کے دل میں محبت کا سمندر موجزن نہ ہوتا تو وہ کیوں کر اس سیلاب میں بہہ جاتی جس سیلاب نے بس گھر ہی نہیں بہائےپر دل بھی بہائے جو بند سینوں میں مقید ہیں
حانی بلوچ کا بھی دل سیلاب میں بہہ گیا ہے اور اب وہ سسئی کی ماند ان راستوں پر ہے جس راستوں پر بارش سیلاب تو کیا پر عام دنوں میں بھی گزر نہیں
پر یہ لطیف کے قافلے کی آخری جوگی ان ہی سفروں پر ہے
جن راستوں پر یا تو لطیف کا گزر ہوا
یا لطیف کے فقیروں کا
یا صوفیوں کا
یا جوگیوں کا
یا تو قلندر جیسی لڑکی حانی بلوچ کا!
اور وہ آگے بڑھ کرعلی الاعلان سب کو کہتی ہے
”اعلان ہزاریں مان نہ رگو!“
محبتی کرداروں کو پہلے دھرتی جانتی ہے پھر لوگ! وہ بھی جب اعلان بن کر سامنے آئی تو اسے پہلے دھرتی نے جانا پھر لوگوں نے اب تو اس بلوچ دھرتی کا وشال آکاش بھی جانتا ہے کہ یہ دیس کے لوگوں کی محبت میں مسافر بنی ہے
اس لیے جہاں بھی دھرتی جلتی ہے،داغ دار ہو تی ہے،دھرتی چیخ بنتی ہے،یہ وہاں نظر آتی ہے،
جہاں بھی دھرتی ڈوبتی ہے۔ماؤں کی آنکھیں اشکبار ہوتی ہے،بچے بھوک سے رو تے ہیں اور گھر بارشوں میں گرتے ہیں تو وہاں یہ نظر آتی ہے
بلوچ دھرتی کا ایسا کون سا دکھ ہے جہاں یہ نظر نہ آتی ہو،شال کی گلیوں میں روتی مائیں ہوں یا کراچی کی سڑکوں پر احتجاج کرتی سمی،کراچی میں مسنگ پرسن کے لیے مارچ ہو یا شال کی گلیوں میں انصاف کی صدائیں دیتی مائیں،بہت دور بانک کریمہ کی مٹی حوالے ہونے کے قصے ہوں یا کمال کی زوالیت!
کراچی میں برمش کے لیے بلوچ کونجوں کی گونج ہو یا حیات کی حیات چھن جانے کی باز گشت!
بلوچ شاگردوں کے لیے انصاف کی بات ہو یا حسیبہ قمبرانی کے درد بھرے آنسو
ہر جگہ حانی کے قدم پہنچے ہیں۔حانی کے قدم ان دشوار گزار راستوں اور ریت پر بھی ثبت ہیں جو راستہ دل سے ہوکر ٹیارو جاتے ہیں جہاں مائیں بھیگتی بارشوں میں اور بہتے سیلابوں میں کسی یسوع کی منتظر تھیں اور حانی بلوچ وہاں یسوع کی ماند ظہور ہوئیں اور بچے مسکرا اُٹھے،بچوں نے کھانا کھایا،ماؤں نے بچوں کو دودھ پلایا ،بچوں نے نئے کپڑے پہنے اور پورا آکاش تاروں سے بھر گیا
حانی بلوچ کازانت زاکس کا وہ کردار ہے جس کے لیے کازانت زاکس نے لکھا کہ
’’مجھ سے کسی نے پوچھا خدا کہا ہے؟‘‘
’’اور میں بادام کے درخت کو چھووا وہ باداموں اور پھولوں سے بھر گیا!‘‘
حانی بھی سیلاب متاثرین کے لیے وہ پھول ہے جسے غم زدہ لوگ چھوتے ہیں
تو وہ پھولوں سے اور باداموں سے لد جاتے ہیں!
ان راستوں پر بھی حانی کے پیروں کے نشان ملتے ہیں کہ وہ وہاں بھی گئی دشوار راستوں سے ہوکر گئی جن راستوں پرحانی اور حانی جیسی دوسری بیٹیاں تپتے دن اور اداس راتوں کے درمیاں گئیں اور اپنے دیس کی ماؤں اور بیٹیوں کے آنسو پونچے اور ان کا چولھا جلایا اس واعدے کے ساتھ کہ
”میں پھر لوٹوں گی
جب تم روؤ گی نہیں
پر مسکراؤ گی نئے طلوع ہو تے
سورج کی ماند!‘‘
حانی بلوچ غالب کا یہ شعر ہے کہ
”فارغ نہ مجھے جان،کہ مانندِ صبح و مہر!“
حانی بلوچ نئے صبح کی نئی مہر ہے
حانی بلوچ چمکتا چاند ہے
ماہِ تمام ہے!
عشق کا دریا ہے
لہر لہرسوزانِ عشق ہے
”دھرتی کی دانھن ہے!“(فریاد)
ایسی دانھن جسے ابھی سب نے سننا ہے
پہاڑوں سے ہوکر میدانوں میں آنا ہے
اور پھر سب کی دلوں اور روحوں میں سماء جانا ہے
بلوچ دل اور بلوچ دھرتی کے دل اپنی بیٹی کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور بلوچ دل اور بلوچ دھرتی دعا گو ہے کہ وہ پیر ہمیشہ بلوچ دھرتی کے سینے پر رواں رہیں جو دردوں اور نا انصافیوں کے لیے اُٹھتے ہیں اور اعلان بن جاتے ہیں ایسے پیر جو تھکے ہوئے ہیں پر رکتے نہیں ایسے پیر جو زخمی ہیں پر رکتے نہیں ایسے پیر جو چھیوں چھیوں ہیں پر تھکتے نہیں،ایسے پیر جن پیروں میں لطیف کی جو تی پہنی ہوئی ہے
ایسے پیر جو دھول سے بھرے ہوئے ہیں
ایسے پیر جو سفروں سے پُر ہیں
ایسے پیر جن پیروں میں دردوں سے پُر جو تی پہنی ہوئی ہے
وہ پیردردوں سے شلِ ہیں
یہ لطیف کے پیروں جیسے پیر ہیں
کاش ان پیروں کی جو تی اُٹھانے کے لیے کہیں سے
کوئی تو تمر آئے
اور جب حانی اس سے کہے میرے جوتیاں اُٹھاؤ
اور جوتیاں اُٹھاتے اس تمر جیسے فقیر سے اک آہ نکل جائے
اور وہ کہے ”بانک!ایسی بھا ری جوتیاں؟!“
اور حانی کہے
”ان جوتیوں میں سفروں کے درد بھی تو ہیں!“
ماہ رنگ درد کے ساتھ ہنستی ہے،مسکرا تی ہے،آگے بڑھتی ہے اور جو کہنا ہوتا ہے کہہ دیتی ہے
کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اگر کچھ نہ کہا گیا تو خاموشی دامن سے چمٹ جائیگی
اور جب خاموشی دامنوں کو گھیرتی ہے تو دل اور آنکھیں بھی خاموش ہو جا تے ہیں.
اور خاموشی کے دنوں می حانی چیخ بن جا تی ہے
اور زوال کے دنوں میں کمال بن جا تی ہے
اور کہتی ہے
”آج مجھے کچھ یاد نہیں
زنداں کی فریادوں میں
بے بس من کی جگہ کہاں
مہکی مہکی یادوں میں
کل جو تمہا ری چوٹی میں
میں نے پھول لگایا تھا!“
حانی بلوچ دھرتی کا ماہِ تمام ہے
اور بلوچ دھرتی میں ایسے سمایا ہوا ہے
جیسے مہکی مہکی یادوں میں زرد پھول۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں