ترک دفاعی کمپنی بایکار نے رواں ماہ متحدہ عرب امارات کو 20 مسلح ڈرون فراہم کیے ہیں اور مزید بھی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔
ترک ذرائع نے بتایا کہ سابقہ علاقائی حریفوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں آنے والا پگھلاؤ فوجی معاہدوں کے ذریعے پھیلتا جا رہاہے۔
رپورٹس کے مطابق شام، یوکرین اور لیبیا کے تنازعات پر اثرات کے بعد بایکار کے ڈرونز کی بین الاقوامی طلب میں اضافہ ہوا، جہاں انکے لیزر گائیڈڈ بکتر کے پار جانے والے بموں نے دو سال قبل یو اے ای کی حمایت یافتہ افواج کے حملے کو پسپا کرنے میں مدد کی۔
لیبیا میں خانہ جنگی ان متعدد محاذوں میں سے ایک تھی جہاں دونوں ممالک نے گزشتہ سال ہوئی مصالحت تک مشرق وسطیٰ میں اثرو رسوخ کے لیے کئی دہائیوں تک تلخ جنگ لڑی۔
فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب متحدہ عرب امارات اور اس کا اتحادی سعودی عرب، ایران اور اس کی پراکسی فورسز کی جانب سےبڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ترکیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھانے کی امید کر رہے ہیں۔
دونوں خلیجی عرب تیل کی ریاستوں کو شہروں اور تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملوں کا سامنا کرنا پڑا جس کا الزام انہوں نے یمن میںایران کے حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں پر عائد کیا۔
مذاکرات کے بارے میں باخبر ذرائع نے بتایا کہ ابوظہبی اور ریاض، انقرہ سے بایکار TB2 ڈرون حاصل کرنے کے لیے بات چیت کر رہےہیں۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ بات چیت کے دوران فیصلہ کیا کہ 20 مسلح ڈرون تیزی سے فراہمکیے جائیں انہیں اس ماہ کے شروع میں منتقل کیا گیا تھا۔
ایک سینیئر ترک عہدیدار نے تصدیق کی کہ ترکیہ نے متحدہ عرب امارات کو کچھ ڈرون فراہم کیے ہیں اور متحدہ عرب امارات مزیدطلب کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب مسلح ڈرون خریدنا اور انہیں بنانے کے لیے ایک فیکٹری لگانا چاہتا ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ بایکار ایک مینوفیکچرنگ پلانٹ کے لیے سعودی درخواست پر غور کر رہی ہے لیکن یہ صدر طیب اردوان کے لیے ایکاسٹریٹجک فیصلہ ہوگا کیوں کہ دیگر مسائل درپیش ہیں جیسا کہ ترکی میں سعودی سرمایہ کاری اتنی تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہیجتنی ممکن ہے۔
دوسری جانب بایکار کمپنی، یو اے ای کی وزارت خارجہ اور سعودی عرب کے سرکاری پریس دفتر نے تبصرے کی درخواست کا جوابنہیں دیا۔