لاپتا افراد کی بازیابی کے کیس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کو لاپتا کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے۔
آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی کے کیس میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف پیش ہوئے، ان کی آمد کے پیش نظر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
سماعت کے آغاز سے قبل عدالتی عملے نے بتایا کہ چیف جسٹس کی عدالت میں آج صرف لاپتا افراد کیس کی سماعت ہوگی اور دیگر کیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی۔
کیس کی سماعت کے لیے لاپتا افراد کے لواحقین عدالت پہنچ گئے، لاپتا صحافی مدثر نارو کا کم سن بیٹا بھی کمرہ عدالت میں موجود تھا جہاں شہباز شریف نے ان سے ملاقات کی، دریں اثنا آمنہ مسعود جنجوعہ بھی عدالت پہنچیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو وزیر اعظم شہباز شریف، اٹارنی جنرل اور وزیر قانون روسٹرم پر آگئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیراعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس ملک کے منتخب نمائندے اور چیف ایگزیکٹو ہیں، اس عدالت نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کیوں کہ یہ بہت بڑا معاملہ ہے، ریاست کو وہ رسپانس نہیں آرہا جو آنا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے اس ملک میں 9 سال حکمرانی کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب فخریہ لکھا اپنے لوگوں کو بیرون ملک فروخت کیا، یہ عدالت تفتیشی ایجنسی نہیں ہے، بہت دفعہ عدالت نے یہ معاملہ فیڈرل کیبنٹ کو بھیجا، فیڈرل کیبنٹ کو کوئی ایسا رسپانس نہیں دیا جو آنا چاہیے تھا
انہوں نے کہا کہ آپ نے ایک کمیٹی بنائی، یہ عدالت آئینی عدالت ہے، یہ معاملہ صرف کمیٹی کا نہیں، لاپتا افراد کے لیے کمیشن بنا، لاپتا افراد کی فیملی بیٹھی ہیں انہوں نے کمیشن کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں، ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ پوری ہونی چاہیے، لوگ بازیاب ہوئے لیکن کبھی کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہ عدالت آئین کو دیکھے گی اس سے بڑا ایشو کوئی بھی نہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس عدالت میں بلوچ طلبہ کے تحفظات سامنے آرہے ہیں، ایسا تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو اٹھائیں، یہ تاثر ہماری نیشنل سیکورٹی کو متاثر کرتا ہے، سیاسی قیادت نے اس مسئلہ کو حل کرنا ہے، لوگوں کو لاپتا کرنا ٹارچر کی سب سے بڑی قسم ہے، عدالت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں کہ صرف ایگزیکٹو سے پوچھے، آپ سیلاب متاثرین کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس ایشو کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہیں، اس ملک کی نیشنل سیکورٹی آپ وزیراعظم ہیں آپکے ہاتھ میں ہے، اس عدالت کا آپ پر اعتماد ہے، آپ اس کا حل بتا دیں، ایک چھوٹا بچہ ادھر آتا ہے اس کو یہ عدالت کیا جواب دے، اس وقت کے وزیراعظم سے بھی بچے کی ملاقات ہوئی، یہ عدالت جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے۔
اس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ یہ سب میری ڈیوٹی ہے۔
چیف جسٹس نے وزیر اعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ گورننس کے بہت مسائل ہیں اور وہ تب ہی ختم ہوں گے جب آئین بحال ہو گا، زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے ادارے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔
شہباز شریف نے جواب دیا کہ مجھے جب آپ کا حکم ملا تو میں عدالت کے سامنے پیش ہو گیا، آپ نے بہت اہم آبزرویشنز دی ہیں، میں کوئی عذر پیش نہیں کروں گا، بچے نے کہا وزیراعظم میرے ابو کو مجھ سے ملا دیں، یہ جملہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے، میں یقین دلاتا ہوں میں پوری کوشش کروں گا، میں اس ملک کی عدالتوں کو جوابدہ ہوں، مجھے جا کر اپنے رب کو بھی جواب دینا ہے، میں یہاں الزام تراشی والی گیم کھیلنے نہیں آیا۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم نے ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے اور اس کی 6 میٹنگز ہو چکی ہیں، میں اپنے عوام کو بھی جوابدہ ہوں، ناقابل تردید ثبوت عدالت کے سامنے رکھوں گا، حقائق خود بولتے ہیں، میں بہت سادہ آدمی ہوں اللہ مجھے معاف کرے، لاپتا افراد کمیٹی 6 اجلاس کرچکی، لاپتا افراد کمیٹی کے ہر اجلاس کی نگرانی کروں گا اور عدالت میں رپورٹ پیش کروں گا، رپورٹ کوئی کہانی نہیں ہوگی، بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی،
انہوں نے مزید کہا کہ 4 سالوں میں 2 مرتبہ جیل گیا، میرے اہلخانہ نے بھی اذیت دیکھی، میں نے بطور وزیر اعلی پنجاب اپنا خون پسینہ بہایا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے، ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ’آپ آئین کا آرٹیکل 7 پڑھیں‘، اٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 7 پڑھ کر سنایا، جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ اب بتائیں لاپتا افراد کا ذمہ دار کون ہے، اسلام آباد سے دو بھائی غائب ہوئے آج تک ان کا پتا نہیں چلا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے جواب دیا کہ لاپتا افراد کیسز میں آپ کو ہمارا رویہ نظر آئے گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ کمیٹیاں بنتی رہی یقین دہانی کرائی جاتی رہی لیکن کوئی کام نہیں ہوا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میں یہ تو نہیں کہتا سارے لاپتا افراد بازیاب ہوں گے لیکن کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، ڈکٹیٹر کی پالیسیوں کا میں اور میرا بھائی بھی نشانہ بنا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سابق سربراہ نے تسلیم کیا کہ شہریوں کو لاپتا کرنا ریاستی پالیسی تھی، آئین کے مطابق کوئی بھی شہری لاپتہ ہو تو ریاست ذمہ دار ہوتی ہے،
وزیراعظم شہباز شریف نے جواب دیا کہ اس چیف ایگزیکٹو کے دور میں ہمیں ملک بدری میں رہنا پڑا، یہ ملک اس شخص کی وجہ سے بہت متاثر ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہریوں کو لاپتا کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے، آپ کو اس لیے بلایا کہ ریاست سمجھ سکے کتنا بڑا ایشو ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جب میں وزیر اعلیٰ پنجاب تھا تو ہر زبان والے طلبہ کو پنجاب میں داخلے دیے، بلوچ، پشتون، سندھی پنجابی سب طلباء کو دانش سکولز میں فری داخلے دلوائے، بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی سارے پاکستانی ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے، تمام صوبوں کے چیف ایگزیکٹو بھی ذمہ دار ہیں اگر ان کے علاقے سے کوئی اٹھایا جاتا ہے، اس عدالت کے فیصلے سے پہلے ایگزیکٹو نے اس بات کو یقینی بنانا ہوگی کہ کوئی لاپتہ افراد نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کمیشن کے متعلق بہت کچھ بتایا، کمیشن لاپتہ افراد کے لواحقین پر مرہم رکھنے کے بجائے انکو اذیت دیتے رہے، جنھوں نے آئین کی خلاف ورزی کی انکے خلاف کارروائی ہونی چائیے، معاملات کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں ان پر قانون سازی کریں، بھارت نے یہی کیا، دیگر ممالک نے یہی کیا۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو لاپتا کرنا ناقابل برداشت ہے، عدالت چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائے گی، اس ملک میں کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں، یہ عدالت سول سپریمیسی کی آئین کی منشا کو یقینی بنائے گی۔
چیف جسٹس نے وزیراعظم سے استفسار کیا کہ جبری گمشدگیوں پر سیکیورٹی کونسل کے ہر رکن کو عدالت ذمہ دار ٹھہرائے؟ لاپتا افراد کے پرانے کیسز پر لواحقین کو مطمئن کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، آئندہ کسی شخص کو لاپتا نہیں ہونا چاہیے، تلاش کرنا عدالت کا نہیں ریاست کا کام ہے، ریاست کے پاس ایجنسیز ہیں، دیگر ذرائع ہیں، جائیں اور تلاش کریں۔
دوران سماعت وزیر قانون نے کہا کہ 21 سالہ کیس 10 دن میں حل کرنے کا کہنا تو درست بات نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سول بالادستی اور اداروں پر حکومت کا کنٹرول آئین کے مطابق ہونا چاہیے، وفاقی دارالحکومت سے ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی ویڈیوز موجود ہیں، یہ عدالت کیسے مان لے کہ ریاست اتنی کمزور ہے کہ اس کی تحقیقات نہ کر سکے، ایس ای سی پی کے ایک افسر کو اٹھایا گیا اس نے واپس آ کر کہا کہ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔
اس موقع پر مدثر نارو کی والدہ نے کہا کہ ہم فروری 2019 میں دھرنے پر بیٹھے تھے، رانا ثنا اللہ صاحب ہمارے فیصل آباد کے ہیں ان کو کافی اپیلیں کی ہیں، ہم آرمی کی عزت کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں بھی عزت ہی کریں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آپ کا پیغام واضح ہے۔
اس دوران وزیر قانون نے عدالت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یو این سیکریٹری جنرل کو وزیراعظم سے ملنے ساڑھے 10 بجے آنا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیراعظم صاحب آپکا شکریہ کہ آپ آئے، جبری گمشدگیوں کو ختم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہیں۔
بعد عدالت نے وزیراعظم شہباز شریف کو جانے کی اجازت دے دی۔