اگرہمارے احتجاج کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی تو یہ مائیں اور بہنیں گذشتہ 17 دنوں سے گورنر ہاؤس کے سامنے بے یارو مددگار لاوارثوں کی طرح چار راہے پر دربدر نہ ہوتے۔
ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء اور جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر کی۔
انہوں نے یہ باتیں صوبائی وزیر نود محمد دمڑ کے بیان کے جواب میں کی۔ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی نور محمد دمڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایک ٹرینڈ بن گیا ہے کہ مطالبات جائز ہو یا نہ، لوگ پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھ جاتے ہیں جنہیں سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔
صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی سطح پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کے مطالبے پر عملد درآمد بلوچستان حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔
سمی دین بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ کب تک ہماری تکلیف و اذیتوں کو کبھی سیاسی جماعتوں، کبھی ملک دشمنوں کی پشت پناہی کا نام دیکر تو کبھی دوسرے الزامات سے ہماری دکھوں کا مذاق اڑاتے رہینگے؟ اگر ہماری دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتے تو کم ازکم ایسی باتوں سے گمشدہ کرنے والے اداروں کیلئے نئے راستے نہ کھولیں۔
سمی دین بلوچ نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ گورنر ہاؤس کے سامنے گمشدہ افراد کے لواحقین کا دھرنا 18ویں روز جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو دو قدم کے فاصلے پر رہائش پزیر ہیں لیکن انہوں نے دو ہفتوں سے زائد عرصے سے سڑکوں پر بیٹھے غمزدہ ماؤں سے ایک ملاقات کرنا تک گوارا نہیں سمجھا، پھر ہم حکومت سے مزید کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔