وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ ہم ایک مہینے سے گورنر ہاوس کے سامنے بیٹھے نظر انداز ہوئے، سڑکیں بند کی تو عوام کی مشکلات نظر آئی، کیا ہم عوام نہیں کہ ہماری تکالیف دکھائی نہیں دیتی ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ بلوچستان کے پریس کانفرس کے بعد کی۔ جہاں وزیر اعلیٰ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کیخلاف کاروائی کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی وزیراعلیٰ نے کہا کہ جبری گمشدگیاں صوبائی حکومت کا مسئلہ نہیں ہے۔
سمی دین بلوچ نے وزیر اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسلام آباد بھی گئے ہیں، ریڈ زون پر کھڑے ہوکر احتجاج بھی کیا اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات بھی کی، اب آپ بتائیں ہم کہاں جائیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف ہم سے ملاقات نہیں کرتے، جی ایچ کیو میں جانا ہماری پہنچ میں نہیں، کور کمانڈر سے ملاقات کا مطالبہ کیا ہے وہ بھی آپ نہیں کرسکتے، ایک مہینے سے گورنر ہاؤس کے سامنے بیٹھے تو نظر انداز ہوئے آخر کار مجبوری میں ہم نے سڑکیں بند کی تو عوام کی مشکلات نظر آئے۔ کیا ہم عوام نہیں یا ہماری تکلیف دکھائی نہیں دیتی؟
خیال رہے زیارت واقعے کے بعد گورنر ہاؤس کے سامنے ریڈ زون میں جاری بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے کو آج چونتیس دن مکمل ہو گئے، پچاس کے قریب بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین پچھلے ایک مہینے سے اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے احتجاجی دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔
آج لواحقین نے اپنے احتجاجی پروگرام کو مزید وسعت دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے کل کے وعدہ خلافی پر پھر سے جی پی او چوک اور اسمبلی چوک سرینا ہوٹل کے سامنے روڈ بلاک کیا۔
آج صبح گیارہ بجے سے جی پی او چوک اور بارہ بجے سے اسمبلی چوک کو بھی ٹریفک کیلئے بند کیا گیا، اسمبلی چوک پہ ڈی سی او اور ایس ایس پی کوئٹہ نے آکر مظاہرین سے مذاکرات کیئے اور کہا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ڈی آئی جی آکر آپ لوگوں سے ملاقاتیں کریں گے۔
اس موقع پر لواحقین کا کہنا تھا کہ وہ صرف ملاقات کرنے نا آئیں بلکہ انکے پاس ہمارے مسئلے کا حل ہونا چاہیے۔ ڈی سی او اور ایس ایس پی کے اس یقین دہانی پر کہ وہ اس مسئلے پر متعلقہ حکام سے میٹنگز کریں گے اور رات دس بجے تک متعلقہ ذمہ داران ان سے ملنے ضرور آئیں گے تب لواحقین نے اسمبلی چوک اور پھر شام پانچ بجے جی پی او چوک پہ روڈ بلاک ختم کر دیا۔