کراچی: ایک اور بلوچ طالب علم جبری لاپتہ

440

کراچی میں بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے، مختلف بلوچ علاقوں میں گھروں پر چھاپے مارکر لوگوں کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق کراچی میں زیر تعلیم ایک اور بلوچ طالب علم شہداد بلوچ ولد دوشمبے جبری گمشدگی کا شکار ہوگئے ہیں- جبری گمشدگی کا شکار شہداد بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ساحلی علاقے جیونی سے ہے اور وہ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی میں شعبہ ایجوکیشن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

اسی طرح کراچی سے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اس سے قبل کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی کے دو طالب علم دودا بلوچ ولد الہی بخش اور گمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں-

طلباء کے لواحقین نے گذشتہ روز کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ دونوں طالب علموں کو پاکستانی خفیہ اداروں نے 7 جون کو حراست بعد لاپتہ کردیا تھا- خاندان کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔

کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے طلباء کی تعداد پانچ ہوگئی-

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے مطابق بلوچستان اور اب خاص طور پر کراچی سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، جہاں سی ڈی ٹی پولیس کے ذریعے خفیہ ادارے بلوچوں کو جبری لاپتہ کر رہے ہیں، ماما قدیر بلوچ کے مطابق طلباء کو لاپتہ کرنے کے بعد جب انکے لواحقین ایف آئی آر کرنے پولیس کے پاس گئے تو ان کا ایف آئی آر نہیں لیا گیا اور ان کو پولیس نے قبل از وقت مجرم قرار دیا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سندھ میں جب بھی پیپلز پارٹی حکومت میں رہی ہے تو بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور انکے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ مزید تیز تر ہوتا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے منتخب نمائندوں کے بیانیے اور ریاستی اداروں کے بیانیے میں کوئی فرق نہیں، ان سے ہم خیر کی کوئی امید نہیں رکھ سکتے ہیں۔