بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4678 دن ہوگئے، احتجاجی کیمپ میں وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے ساتھ جبری لاپتہ راشد حسين کی والدہ اور مستونگ سے لاپتہ لیویز اہلکار سعید احمد کی والدہ بھی بیٹھے رہیں۔
اس موقع پر ماما قدیر بلوچ نے کہا راشد حسین کو متحدہ عرب امارات میں حکام نے حراست میں لے کر غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا اس کے لاپتہ ہونے سے لے کر آج تک اس کی والدہ سراپا احتجاج ہے ان لوگوں کی ایک سادہ سا مانگ ہے کہ اگر راشد نے کوئی جرم کی ہے اس کو عدالت میں پیش کریں۔
ماما نے کہا راشد کی جبری گمشدگی کے خلاف کل یعنی 21جون کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا جارہا ہے انہوں نے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے درخواست کی ہے وہ اس احتجاج میں اپنی شراکت کو یقینی بنائیں۔
لاپتہ افراد کی کیمپ میں آج اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں نال گریشہ سے بی این پی مینگل کے کارکنان بیان ساجدی، سراج ساجدی، ناصر بلوچ اور دیگر شامل تھے۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاست نے دہشت گردانہ کارروائیوں میں تیزی لائی ہے، خضدار، مشکے آواران نال گریشہ، پنجگور سمیت مختلف علاقوں میں فوج نے اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے فوجی بربریت اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے، کراچی کے بھی مختلف بلوچ علاقوں میں بھی پچھلے ایک دو مہینوں سے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں تیزی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے زرغون ولی تنگی اور قریبی علاقوں میں بھی فوجی آپریشن کی جا رہی ہے، جو اب تک فوجی محاصرے میں ہیں جبکہ دو کم عمر پشتون لڑکے بھی گزشتہ دنوں اٹھا کر جبری لاپتہ کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست نے عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، انسانی حقوق کے تنظیموں کے دعویٰ اور بیانات لفاظی رہ گئے ہیں، بلوچستان انسانی حقوق کے حوالے سے بلیک ہول بنتا جا رہا ہے، نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا بلیک آؤٹ ہے، سب نے چشم پوشی روا رکھا ہے –
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال تیس مارچ کو سوراب سے دو بھائیوں آصف ریکی اور الہ دین ریکی کو دن دیہاڑے بازار سے ایف سی اور ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اٹھا کر جبری لاپتہ کر دیا جن کا تاحال کوئی خیر خبر نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے نوٹس لینے اور اعلامیے جاری ہونے کے باوجود کوئی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں نا کوئی کمی آ رہا ہے نا ان پہ عملدرآمد کیا جا رہا ہے