بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں یوسف عزیز مگسی کی بلوچ نیشلزم کے تشکیل میں سرکردہ حیثیت اور شہید قندیل صبا دشتیاری کا بلوچ نیشنلزم کی آبیاری میں کردار پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بلوچ قومی تحریک جہاں تمام مراحل طے کرکے ایک واضح پروگرام کے تحت منزل کی جانب گامزن ہے وہیں مذکورہ کرداروں کو زیر بحث لائے بغیر جدید بلوچ نیشنلزم نامکمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جہاں بلوچ قوم انگریز قبضہ گیریت کے حصار میں تھی اور انگریز سامراج نے مختلف پالیسیوں اور حربوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کی کوشش کی۔ استعماری پالیسیوں کے بدولت قبضہ گیریت کے خلاف ایک سیاسی مزاحمت شروع کرنے میں بلوچ قوم کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن یوسف عزیز مگسی کا شمار بلوچ قومی تحریک کے اُن اولین کرداروں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے قومی مزاحمت کو سیاسی اور تنظیمی بنیادوں پر تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تنظیم سازی اور اداروں کے قیام کے بدولت بلوچ سماج میں پائے جانے والے تضادات کی جہاں بیخ کنی گئی وہیں علاقائی اور قبائلی تضادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی بنیادوں پر جدوجہد عمل میں لائی گئی۔ آج سے تقریباً ایک صدی قبل تشکیل دیے گئے سیاسی اداروں نے تمام تر ارتقائی مرحل طے کرتے ہوئے آج ایک واضح پروگرام کے تحت بلوچ قومی تحریک کی آبیاری کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید قندیل صبا دشتیاری نے بلوچ قوم اور بلخصوص نوجوانوں کی رہنمائی ایک ایسے وقت میں کی جب ریاست نے مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت زوزانہ کے بنیادوں پر بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے سسلسے کا آغاز کیا۔شہید نے جہاں نوجوانوں کو تحریک سے آشنا اور تحریکی رہنمائی کے لیے تربیتی لیکچرز کا تسلسل جاری رکھا اور بلوچ ادب سمیت بلوچی زبان کی ترویج کےلیے آخری سانس تک جدوجہد کیا۔ ریاست کی جانب سے کئی رکاوٹیں حائل ہونے کے باوجود شہید قندیل نے سیاسی و ادبی جدوجہد کو جاری رکھا اور ریاستی جبر کے سامنے گٹھنے ٹیکنے سے انکار کیا۔ اسی سیاسی و ادبی جدجہد کے بدولت ریاست نے بالآخر ٹارگٹ کلنگ کے تحت صبا دشتیاری کو شہید کیا اور وہ ہمیشہ کےلیے امر ہوئے۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ یوسف عزیز مگسی نے بلوچ قومی تحریک کو سیاسی اور سائنسی بنیادوں پر تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا اور شہید صبا دشتیاری نے اسی جدوجہد کو برقرار رکھتے ہوئے سیاست سمیت بلوچ ادب کو جلا بخشا۔ تنظیم دونوں رہنماؤں اور دانشوران کو خراج عقیدت پیش کرتی اور اسی فلسفے کے بنیاد پر بلوچ قومی جدوجہد کو جاری رکھے گی۔