ملک ناز؛ مزاحمت کی علامت
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب سماج پر جمود کی کیفیت طاری ہو، ہر جگہ خونی و وحشی درندے دندناتے پھرتے ہوں، چوری، ڈکیتی، منشیات فروشی عام ہو، وہاں انسانی زندگی بہت ہی کھٹن اور مشکل سے گزرتی ہے۔ سماج کے مختلف طبقات مختلف طریقے سے خائف رہتے ہیں،کچھ لوگ اس خوف میں جی رہے ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے جگر گوشے ان ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے ہتھے نہ چڑھ جائے، کچھ لوگوں کا خوف ہوتا ہے کہ ان کے بچے منشیات کی لت میں نہ پڑ جائیں اور کچھ لوگ مذہبی انتہا پسندی سے ڈرے اور سہمے نظر آتے ہیں.
بلوچستان میں یہ تمام عناصر ریاستی سر پرستی میں فعال ہیں. یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے بلوچستان میں پاکستانی فوج کی سربراہی میں خوف کی فضاء قائم کی ہوئی ہے. ڈکیتیاں، منشیات فروشی، لوگوں کو لاپتہ کرکے خفیہ اداروں کے حوالے کرنا ان کا پیشہ ہے.
چھبیس مئی بلوچ تاریخ میں ایک مزاحمت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس دن نے بلوچستان میں خوف اور جمود کی کیفیت کو شکست فاش دیکر ایک نئی روح عطا کی. یہ دن ملک ناز اور برمش کے دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا.
اس دن نے بلوچستان میں ریاستی اداروں اور ان کی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے گھناؤنے چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور ملک ناز کو مزاحمت کی علامت بنادیا.
ملک ناز نے مزاحمت کرکے سماج میں بسنے والے تمام لوگوں کو بتایا کہ مزاحمت کھٹن ضرور ہوتی ہے، مزاحمت میں انسان جان سے ضرور چلا جاتا ہے لیکن یہ مزاحمت انسانی تاریخ کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور ایسی ایک بنیاد رکھتی ہے جو تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے. واقعی ملک ناز کی مزاحمت نے ایک نئی تبدیلی کی بنیاد رکھی اور بلوچ سماج میں قائم خوف اور جمود کی فضاء کو شکست فاش دی.
ملک ناز کی مزاحمت کے بعد برمش یکجہتی کمیٹی کا قیام جو وقت کے ساتھ ساتھ بلوچ یکجہتی کمیٹی میں تبدیل ہوا اور اس نے بلوچستان سمیت کراچی بھر میں اپنی بنیاد رکھی اور عوام کو منظم کیا اور مزاحمت کا راستہ دکھایا.
آج تربت، پنجگور، گوادر، کراچی اور دیگر علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے علاوہ دیگر تنظیمیں فعال اور بھرپور سیاسی کردار ادا کررہی ہے اور بلوچ حقوق کے لیے آواز بلند کررہی ہے. اگر چھبیس مئی کی مزاحمت نہ ہوتی تو شاید تاریخ نہ بدلتا اور مزاحمت اتنی منظم اور مضبوطی سے اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتی لیکن ملک ناز نے مزاحمت کرکے ایک نئی بنیاد رکھی اور آج بلوچستان کی مزاحمت تاریخ کے ایسے دور میں داخل ہوچکی ہے جہاں پاکستان کے پاس اپنی شکست کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں