بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں حق دو تحریک کی اپیل پر مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال کی جارہی ہے جبکہ سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک کی روانی معطل کر دی ہے –
رواں ہفتے کیچ کے علاقے ھوشاب اور سندھ کے شہر کراچی سے دو بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کی کال دی گئی ہے –
دوسری جانب ھوشاب کے مقام پر نور جان کی جبری گمشدگی بعد ازاں سنگین الزامات عائد کرنے کے خلاف تربت، کوئٹہ شاہراہ پر بھی مسلسل ساتھ دنوں سے احتجاج کے باعث تربت کا پنجگور اور کوئٹہ سے زمینی رابطہ منقطع ہے اور مقامی خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد وہاں دن رات دھرنا دیے بیٹھے ہیں –
جبکہ گذشتہ دنوں کراچی سے لاپتہ کیے گئے بلوچ شاعرہ حبیبہ پیر جان کی گمشدگی کے خلاف تربت شہر سے چند کلومیٹر دور ڈی بلوچ کے مقام پر خواتین اور شہریوں کی دھرنے کے سبب تربت کا گوادر اور کراچی سے زمینی رابطہ منقطع ہے اور دو دنوں سے کئی مسافر بس اور مال بردار گاڑیاں پھنس گئے ہیں –
ڈی بلوچ کے مقام پر تربت کو گوادر اور کراچی سے ملانے والی سڑک پر مقامی خواتین کے علاوہ سول سوسائٹی، حق دو تحریک کے کارکنان بھی احتجاج میں شامل ہیں اور انکا مطالبہ ہے کہ بلوچ خواتین کو باعزت رہا کیا جائے-
ہفتے کے روز حق دو تحریک کی اپیل پر شہر میں جاری شٹرڈاؤن ہڑتال کے باعث تمام کاروباری مراکز، سرکاری دفاتر اور مالیاتی ادارے بند ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے –
دوسری جانب ھوشاب سے جبری گمشدگی کے بعد منظر عام پر آنے والی خاتون نور جان کی ضمانت منظور نہیں ہوئی اور عدالت نے شنوائی پیر تک معطل کردیا –
جبکہ کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والی شاعرہ کے بارے میں ابتک عسکری حکام اور سرکاری ذرائع نے کوئی موقف پیش نہیں کیا ہے-
حبیبہ کی بیٹی کے مطابق انکی والدہ کو رواں ہفتے بدھ کی شب گھر سے اغوا کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، جب میں نے کھڑکی سے دیکھا تو چند گاڑیاں اور رینجرز اہلکار موجود تھے۔ جب والدہ نے دروازہ کھولا تو اہلکار انہیں ایک طرف لے گئے اور پوچھ گچھ کی۔
حنا کے مطابق رات کی تاریکی میں گھر آنے والے اہلکار لیپ ٹاپ اور موبائل وغیرہ بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بھی لوگ ان واقعات کی مذمت کررہے ہیں اور ایسے عمل کو ریاست کے لیے مفید قرار نہیں دے رہے ہیں –
تربت کے ڈی بلوچ اور ھوشاب میں نور جان اور حبیبہ پیر جان کی جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی دھرنے میں بیٹھے لواحقین اور منتظمین نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ متاثرہ فیملی اپنے آپ کو اکیلے محسوس نہیں کریں –
لواحقین نے کہا کہ اگر سے ایک خاتون ماں کا لاپتہ ہونا بہت اذیت ناک صورتحال ہے اور ریاست کے اس عمل سے بلوچ کو بہت کچھ سوچنا چاہیے کہ وہ اس طرح کے واقعات کو کب تک برداشت کرے گا –