تربت، خضدار، نوشکی اور قلات میں نام نہاد انتخابات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے

573

بلوچ لبریشن آرمی نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے قابض ریاست پاکستان کے نام نہاد بلدیاتی انتخابی عمل کو تربت، خضدار، نوشکی اور قلات کے علاقوں میں سات مختلف حملوں میں نشانہ بنایا، جن میں قابض فورسز کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پولیس اسٹیشنوں کو بھی نقصان پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے گذشتہ رات کیچ کے مرکزی شہر تربت میں کہدہ یوسف محلہ آبسر کے اسکولوں میں قائم دو پولنگ اسٹیشنوں کو وقفے وقفے سے دستی بم حملوں میں نشانہ بنایا، جبکہ آج صبح تربت کے علاقے ڈھنک میں بھی پولنگ اسٹیشن کو دستی بم حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ حملوں کے نتیجے میں مذکورہ پولنگ اسٹیشنوں کو نقصان پہنچا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ رات خضدار کے علاقے زہری کہن میں پولیس تھانے کے قریب قائم ایک پولنگ اسٹیشن کو سرمچاروں نے دستی بم حملے میں نشانہ بناکر نقصان پہنچایا۔

ترجمان نے کہا کہ دریں اثناء قلات کے علاقے منگوچر میں جوہان کراس کے مقام پر فورسز کی گاڑی پر ایک آئی ای ڈی حملہ کیا گیا جبکہ دوپہر کے وقت منگوچر ہی کے علاقے میں مقامی کالج میں قائم پولنگ اسٹیشن کے حفاظت پر معمور ایف سی اہلکاروں پر دستی بم حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں انہیں جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے مزید ایک حملے میں نوشکی شہر سے متصل کلی سردار مینگل میں پولنگ اسٹیشن کو دستی بم حملے میں نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی ان تمام حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ مزید برآں ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ سرمچاروں نے تنظیمی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ان تمام حملوں کی شدت کم رکھی اور حملوں کیلئے ایسے اوقات کا چناو کیا گیا جب پولنگ اسٹیشنوں پر ہجوم جمع نہیں تھا۔ جس کا مقصد بلوچ عوام کو نقصانات کے زَد میں آنے سے بچانا تھا۔

جیئند بلوچ نے کہا کہ قابض کے تمام انتخابات کی طرح ، بلوچ عوام کی بھاری اکثریت موجودہ انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے دور رہی، لیکن ایک قلیل تعداد بے شعوری یا خوف کی وجہ سے مجبوراً ان انتخابات کا حصہ بنی۔ ایسے بلوچ، جنہوں نے اس انتخابی عمل میں بے شعوری یا مجبوری کی وجہ سے حصہ لیا، انہیں سرمچاروں نے دانستہ طور پر نشانہ بنانے سے گریز کیا۔ بلوچ لبریشن آرمی کی یہ کوشش رہیگی کہ ان تک قومی آزادی کا سوچ پہنچایا جائے تاکہ انہیں یہ ادراک ہوسکے کہ قابض کے کسی بھی قسم کے انتخابات من حیث القوم ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ دشمن کے قبضے کو تقویت و طوالت پہنچانے کا آلہ ہیں۔ قابض کا بوسیدہ جمہوری نظام محض فوج اور پنجابی اشرافیہ کے مفادات کی تکمیل کرتا ہے، جس کے ثمرات پاکستان کے اپنے عوام تک نہیں پہنچتے تو بلوچستان جیسا مقبوضہ خطہ کیسے اپنے قومی مسائل کا حل اس میں پائیگا۔

بی ایل اے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ان انتخابات میں قابض کے پے رول پر چلنے والا ایک ایسا طبقہ بھی سرگرم تھا، جو فوج اور خفیہ اداروں کے گماشتے ہیں، یہ طبقہ سب کچھ سمجھنے اور جاننے کے باوجود اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر دانستہ طور پر دشمن کے قبضے کو استحکام بخشنے کیلئے، ان انتخابات میں شامل تھی۔ عوامی جان و مال کے تحفظ کے تحت ایسے گماشتوں پر حملوں سے گریز کیا گیا لیکن ان تمام افراد کی ناموں کی فہرست ترتیب دی جاچکی ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی ان افراد کو نام نہاد انتخابات کے بعد بھی ایک ایک کرکے نشانہ بنائیگی۔