بلوچ نیشنل موؤمنٹ ،کونسل سیشن اور عوام کی امیدیں
تحریر:منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جبری الحاق کے بعد سے بلوچستان ظلم و جبر کے چکی میں پستا چلا آرہا ہے_ ہر گزرتے دن کے ساتھ ظلم میں اضافہ ہورہا ہے_ انیس سو اڑتالیس سے دو ہزار تک بلوچستان میں سیاسی ادارے یا تو نہ ہونے کے برابر تھی یا منظم نہ تھی_لیکن اکیسویں صدی کے آغاز میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی بنیاد اور بلوچ نیشنل موومنٹ کی تشکیل نے بلوچ سیاست کو پر اسراریت سے نکال کر سائنسی بنیاد فراہم کیا جس کی سیاسی لہر نے نہ صرف بلوچ سماج کومعطر کردیا بلکہ ریاست کی بنیادوں کو ایسے ہلادیا کہ ریاست نے اپنی پوری مشینری بلوچ سماج و سیاست کو کچلنے کے لئے استعمال کیا۔
کہتے ہیں کہ سیاسی عمل جنگ کو تپش دیکر منزل کی جانب محو سفر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے_اکبر خان اور بالاچ خان کی شہادت نے بلوچ سماج میں خوف کی فضاء کو ختم کرکے سیاست اور سیاسی عمل کی جانب راغب کیا۔ دو ہزار آٹھ کو جب قبضہ گیر پاکستان کے عام انتخابات منعقد ہوئے تو وفاق،سندہ اور بلوچستان میں بلوچوں کے قتل عام میں ریاستی ہمنواء پارٹی پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی _
جب پیپلز پارٹی کی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو وزیر اعظم منتخب ہونے والے گیلانی نے اسمبلی فلور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کا اعلان کیا اور کچھ دنوں کے بعد آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان ہوا_
در حقیقت یہ دونوں اعلانات بلوچستان پر قہر بن کر ٹوٹے ،بلوچستان میں فوجی آپریشن کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا ،سینکڑوں مسخ شدہ لاشیں ،ہزاروں افراد کی جبری گمشدگی اور اجتماعی قبروں کی بر آمادگی کے علاوہ بلوچ سیاست سے منسلک رہنماؤں کی جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشیں بر آمد ہوئی جن میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی واجہ غلام محمد کو ساتھیوں سمیت شہید کردیا گیا_
مرکزی انفارمیشن سیکرٹری حاجی رزاق بلوچ ،مرکزی فائنانس سیکرٹری رزاق گل بلوچ ،مرکزی کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر دین جان ،غفور بلوچ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی و زونل ممبر کی جبری گمشدگی اور شہادت کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے۔
جب دو ہزار چودہ میں پارٹی کا کونسل سیشن اور بعد کے حالات بلوچستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دور تھا کیونکہ اس وقت سی پیک معاہدہ کے وجہ سے بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی گئی جو اب بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہے،درجنوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا،کئی گھروں کو نذر آتش کیا گیا ،بی این ایم کے مرکزی جنرل سیکرٹری سمیت مرکزی کمیٹی ،،ضلعی و زونل رہنماؤں و کارکنان کو جبری گمشدہ کا شکار یا شہید کیا گیا_سیاست و سیاسی عمل پر پابندی کی وجہ سے پورا بلوچ معاشرہ تاریکی کا منظر پیش کررہا تھا، ہر سو خاموشی کا عالم تھا ، بلوچ قومی تحریک کے خلاف ریاستی پروپگنڈہ اپنے عروج پر ہے،ریاستی سرینڈر پالیسی اور کچھ ڈگمگاتے قدموں اور بطور فیشن تحریک میں شمولیت اختیار کرنے والے کمزور سوچ کے مالک لوگوں کے سرینڈر نے سماج میں ایک ہیجانی کیفیت اور قنوطیت کو جنم دیا،لیکن آزادی کے جذبے سے سرشار سیاسی اور مسلح کارکنوں نے بلند جذبوں کے ساتھ تحریک کو منظم کرنا شروع کردیا۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کا کارواں بھی اپنے منزل کی جانب رواں دواں رہا ،کمزوریوں اور ریاستی کریک ڈاؤن کے باوجود بھی سیاسی عمل جاری رہا_دو ہزار بیس و اکیس کے مرکزی کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی کونسل سیشن کا انعقاد کریں گی جو بلوچ سیاست کے لئے ایک نیک شگون تھا کیونکہ قربانیوں اور ریاستی کریک ڈاؤن کی وجہ سے بلوچ سماج میں جو سیاسی خلاء پیدا ہوا اسکو پر کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرکے نئی حکمت عملی اور پالیسیوں کے ذریعے بلوچ سماج میں سیاسی پروگرام پر عملدرآمد کا آغاز کیا جائے جو موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بائیس اپریل سے چھبیس اپریل کو بلوچ نیشنل موومنٹ کا کونسل سیشن منعقد ہوا جس میں چئیرمین ڈاکٹر نیسم بلوچ جبکہ دلمراد بلوچ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
منعقدہ کونسل سیشن صرف ایک کونسل سیشن نہیں تھا بلکہ بلوچ قوم کی امیدوں کا مرکز تھا کیونکہ بلوچ نیشنل موومنٹ اپنے قیام سے لے کر آج تک بلوچ قوم کی آزادی و فلاح و بہبود کے لئے جدوجہد کررہی ہے موجودہ حالت جہاں بلوچ قوم کا ہر طبقہ فکر ریاستی بربریت سے متاثر ہےملک ناز ،کلثوم،بانک کریمہ کی شہادت،حیات بلوچ ،نوکنڈی واقعہ نے بلوچ سماج میں خوف کے عنصر کو ختم کرکے سیاسی عمل کی نئی ابتدا کردی ہے_ان مشکل حالات میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے لیڈر شپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچ سیاست کے تمام مسائل مشکلات کو مد نظر رکھ کر حکمت عملی ترتیب دیں ،دیگر آزادی پسند سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر موجودہ مشکل حالات کا مقابلہ کریں۔
بلوچ قوم کی سیاسی تربیت ،لٹریچر کی فراہمی کو یقینی بنانے کی جدوجہد کریں،کیونکہ بی این ایم صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ بلوچ شہدا کی وارث اور قوم کی امیدوں کا مرکز ہے _قوم کو ہجوم سے قوم میں تبدیل کرنے کی صلاحیت موجودہ قیادت میں موجود ہے امید ہے کہ بلوچ نیشنل موؤمنٹ قوم کو قنوطیت کے ماحول سے نکال کر آزادی کی راہ پر گامزن کرکے منزل مقصود کے قریب لائے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں