کیا براہمدغ بگٹی پس پردہ مذاکرات کررہا ہے؟
تحریر: میرجان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دنوں گلزار امام کی ایک ٹوئٹ سوشل میڈیا میں گردش کررہی تھی جہاں گُلزار امام نے تو کسی کا بھی نام نہیں لیا مگر چونکہ ان کی وابستگی براہمدغ بُگٹی سے رہی ہے اس لئے میں نے اس زاویے سے تحقیق کرنے کی کوشش کی اور کچھ حقائق معلوم کیئے جو میں پڑھنے والوں کی خدمت میں رکھنا چاہوں گا۔ گُلزار امام نے غالباً انہی الزامات کو دُہرایا جو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور حاصل خان بزنجو نے لگائے تھے، چونکہ اس وقت تک میرے لئے براہمدغ کی شخصیت زیادہ معتبر تھی اور میں ان پر زیادہ اعتبار اور یقین کرتا ہوں مگر جب گُلزار امام جیسی شخصیت نے انہی الزامات کو دُہرایا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور یہ فیصلہ کیا کہ اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔ گُلزار امام نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 2015 میں ریاست کے ساتھ ناکام مذاکرات کے بعد وہ آج ایک بار پھرریاست کے ساتھ مذاکرات میں مشغول ہے۔
بحیثیت ایک جہدکارمیں جنگ اور سیاست میں مذاکرات کی اہمیت و افادیت سے نہ انکار کرسکتا ہوں اور نہ کوئی سیاسی کارکن اس سے انکاری ہوسکتا ہے لیکن مذاکرات ہمیشہ ایک حتمی نتیجہ حاصل کرنے کے لئے ہونے چاہیے اور اس مذاکرات کے مندرجات قوم کے سامنے واضح ہونے چاہیے چونکہ یہ جدوجہد کسی بھی شخصیت کی ذاتی میراث نہیں بلکہ ایک قومی مقصد کے لئے ہونے والی جدوجہد کے حوالے سے بات چیت بھی قومی انداز میں ہونی چاہیے۔ اگر براہمدغ اکیلے اپنی ذاتی حیثیت میں قوم سے چُھپ کر کوئی بھی مذاکرات اور بات چیت کرے گا وہ قومی لحاظ سے کسی کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
گلزار امام نے اپنی ٹوئٹ میں براہمدغ بگٹی پر سنگین الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ براہمدغ بگٹی کے کارندے اپنے زیر اثر علاقوں میں دشمن کے خلاف مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کو فورسز کے ہاتھوں گرفتاراور شہید کرنے میں ملوث ہیں۔ یہ میرے لئے حیران کُن ہونے کے ساتھ ساتھ باعث تشویش بھی تھا اور چاہتا تھا کہ اُسی علاقے کے لوگوں سے ہی معلومات اکھٹی کروں جو براہمدغ بُگٹی کے زیر اثر ہیں۔ میں نے بحیثیت جہدکار ان الزامات کی تحقیقات کیلئے بگٹی قبائل سمیت دیگر جہدکاروں سے معلومات اکھٹی کرنا شروع کی جہاں میں اس نتیجے پر پہنچا کہ براہمدغ بگٹی واقعی بلوچ مسلح جدوجہد سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ گلزار امام نے اپنی ٹویٹ میں 2015 کا ذکر کیا تھا جہاں براہمدغ بکٹی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کی ضمانت پر ریاست سے مذاکرات کیئے تھے۔ لفظ مذاکرات تو جہدوجہد میں لازمی جز ہے لیکن مذاکرات قومی آزادی کے ایجنڈے پر ہونے چاہیے تھے لیکن اس بات کا اقرار خود ڈاکٹر مالک اور حاصل خان بزنجو نے کیا تھا کہ 2015 کے مذاکرات میں براہمدغ بگٹی کے مطالبات معمولی اور علاقائی مسائل پر مشتمل تھے جو اگر مجھے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اجازت دی جاتی تو براہمدغ کے تمام مطالبات بحیثیت وزیراعلٰی بلوچستان میں پورا کرسکتا تھا جس کے بعد براہمدغ کو واپس لایا جاسکتا تھا لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ہٹ دھرمی کے سبب مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے جس کے بعد براہمدغ بگٹی نے دوبارہ ڈیرہ بگٹی سمیت دیگر علاقوں میں سرکاری تنصیبات اور فوجی اہداف پر حملے تیز کیے۔
2017 کے بعد براہمدغ بگٹی نے عملاً مسلح مزاحمت سے کنارہ کش ہونا شروع کیا۔ واضح رہے اس دوران مکران اور رخشان کے محاذ پر بی آراے کی کاروائیاں تسلسل کے ساتھ جاری رہیں کیونکہ باقی علاقے گلزار امام ہی کے زیرکمان و زیر اثر تھے جہاں بلوچ قومی آزادی کے عظیم مقصد کے حصول کی جدوجہد میں مصروف مسلح بلوچ نوجوان مصروف عمل تھے جو سطحی اور ذاتی مفادات کیلئے ہونے والے کسی بھی مذاکرات سے انکاری تھے جس کی بناء پر 2018 کو گلزار امام کو بے بنیاد الزامات کے تحت تنظیم سے فارغ کرنے کا بیان جاری کیا گیا۔ بی آراے کی اکثریت گلزار امام کے ساتھ وابستہ تھی جنہوں نے اپنی مزاحمتی سرگرمیوں میں تیزی لانا شروع کی البتہ ان سرگرمیوں کا مرکز مکران تھا۔ براہمدغ بگٹی کے زیر اثر علاقوں ڈیرہ بگٹی، سوئی، جعفر آباد، نصیر آباد اور دیگر علاقوں میں مزاحمتی سرگرمیاں مکمل ٹپ ہوکر رہ گئیں۔ معتبر ذرائع کے مطابق اس بار براہمدغ بگٹی نے مزاری قبائل کی ضمانت پر ریاست سے دوبارہ مذاکرات کا آغاز کیا ہے جو انتہائی سطحی مطالبات کے ساتھ شروع ہوئے۔ ان مطالبات میں سر فہرست گیس رائلٹی کی پُرانی حیثیت پر بحالی تھی جو دو ارب کے لگ بگ کی رقم بنتی ہے جو ریاست ادا کرتی تھی جس کی ادائیگی ریاست نے قبول کرلی ہے۔ دوسرے مطالبے میں بگٹی قبیلے کے سرداری کا مسئلہ ہے۔ ریاست نے نواب بگٹی کی شہادت کے بعد میرعالی بگٹی کو بگٹی قبائل کا سردار نامزد کرنے میں کردار ادا کیا اور اب براہمدغ بگٹی چاہتے ہیں کہ میرعالی کو ڈیرہ بگٹی میں داخل نہ ہونے دیا جائے اور بگٹی قبائل میرے ماتحت زندگی بسر کرے اور بگٹی قبائل کے تمام معاملات ان کے سپرد ہونگے جہاں ریاست کو ان کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہوگا اور نہ ہی قبائل کے کسی بھی اندرونی معاملات میں ریاست کسی طرح کی مداخلت کریگی، براہمدغ بگٹی جس کو چاہیں رہنے کی اجازت دیں جسے چاہیں علاقہ بدر کریں، نام نہاد ریاستی الیکشن میں بھی صرف براہمدغ کے منظور نظر لوگ حصہ لیں گے اور جیتیں گے، اس پر بھی ریاست کسی طرح کی کوئی بھی مداخلت نہیں کریگی، 2018 سے پہلے گہرام بگٹی اور شاہ زین بگٹی کو ڈیرہ بگٹی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی لیکن اب وہ الیکشن بھی لڑے اور ایم پی اے و ایم این اے بھی بنے، اگر ہمارا حافظہ کمزور نہ ہو تو الیکشن جیسے ہی قریب آئے بلوچ لبریشن ٹائیگرز کے نام سے سوئی، ڈیرہ بگٹی اور قرب و جوار کے علاقوں میں مسلح کاروائیاں ایک دم تیز ہوگئی جس میں گیس پائپ لائنوں، بجلی کے کھمبوں، ریل کی پٹڑیوں اور دیگر فوجی تنصیبات و نفری پر شدید حملے کئے گئے لیکن جیسے ہی الیکشن کے نتائج آ گئے جہاں شاہ زین اور گہرام بگٹی کامیاب ہوئے بلوچ لبریشن ٹائیگرز لمبی چُھٹی پر چلی گئی، اس وقت سے اب تک اس پورے علاقے میں کوئی بھی مسلح کاروائی ہماری نظر سے نہ گزری۔ ایک اہم مطالبے میں سرداری اراضیات کی بحالی اور قابل کاشت بنانا تھا جو جنگ کے دوران بنجر ہوگئی تھی جبکہ بگٹی قبیلے سے سرداری پوڈی مطلب چندے کی وصولی ہے جہاں ریاست کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی۔ ان مطالبات میں ڈیرہ بگٹی کے اکثر فوجی چیک پوسٹوں کا خاتمہ بھی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق ان کے یہ تمام مطالبات کو ریاست نے تسلیم کرتے ہوئے اپنے دو اہم مطالبات براہمدغ بگٹی کے سامنے رکھ دیئے تھے جن میں ڈیرہ بگٹی سمیت پورے بلوچستان میں جنگ بندی اور یورپ میں سیاسی طور پر مکمل خاموشی شامل تھے، جن کو ہماری اطلاعات کے مطابق براہمدغ بگٹی نے تسلیم کیا تھا گذشتہ دو سال سے دونوں جانب سے مطالبات اور شرائط پر مکمل عمل کیا جارہا ہے جہاں سوئی، ڈیرہ بگٹی اور ملحقہ علاقوں سے اب تک متعدد فوجی چیک پوسٹ خالی کرائے گئے ہیں۔ 2004 سے جو فوجی چوکیاں ڈیرہ بگٹی میں تھے، ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد چالیس کے قریب تھی ان میں سے صرف پانچ چوکیاں باقی ہیں جو گیس فیلڈ پر تعینات ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق براہمدغ بگٹئ کی جو زمینیں فوجی قبضہ کے سبب بنجر ہوگئی تھی وہ گذشتہ دو سال سے آباد ہوگئی ہیں اوربگٹی قبائل سے سرداری پوڈی چندہ بھی وصول کیا جارہا ہے جسکی ماہانہ رقم کروڑوں روپے بتایا جاتا ہے۔ اس رقم میں گیس فیلڈ کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ میر عالی بگٹی کی ڈیرہ بگٹی کے حدود میں داخلے کی سخت ممانعت ہے اور اس دوران براہمدغ بگٹی اپنے مخالفین کو بھی ٹارگٹ کررہا ہے جن کو تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کیا جارہا ہے بلکہ وہ بے نام نشانہ بن رہے ہیں، اس بے نامی ٹارگٹ کلنگ میں بس ایک چیز واضح ہے کہ ریاستی ادارے اور تنصیبات محفوظ ہیں بلکہ وہ شخصیات ہی نشانہ بن رہی ہیں جو براہمدغ کے ذاتی مخالف ہیں اور اسی مخالفت میں ہی ریاست کے ساتھی بنے، اس وقت وہ بآسانی شکار بن رہے ہیں۔ اس کا بڑا مقصد ریاست کے سامنے یہ ظاہر کرنا ہے کہ یہ بگٹیوں کے آپسی معاملات ہیں جن سے ریاست کا کوئی واسط نہیں۔
گلزار امام نے اپنے ٹوئٹ میں ایک اور سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا کہ براہمدغ بگٹی اپنے زیر اثر علاقوں میں مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کو شہید کروانے اور ان کو اغواہ کرنے میں ملوث ہے، جو انتہائی سنگین اور باعث تشویش ہے۔ اس پر سب سے زیادہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذرائع تحقیقات کے مطابق یہ الزام بھی درست ثابت ہوئی۔ ریاست سے معاہدے کے دوران براہمدغ بگٹی نے ریاست کو یہ باور کروایا کہ جنگ بندی کے دوران ڈیرہ بگٹی اور اس سے ملحقہ علاقے نصیر آباد، جعفرآباد، سبی اور لہڑی میں مکمل امن ہوگا کیونکہ نصیر آباد میں ملک کا ایک بڑا پاور پلانٹ موجود ہے جو گیس سے بجلی پیدا کررہا ہے جس کی حفاظت پر ایک بڑی فوج موجود تھی گذشتہ سال سے جاری جنگ بندی پر اس وقت پانی پھر گیا جب بی آرجی نے ان علاقوں میں اپنی فوجی کاروائیوں میں اضافہ کردیا۔ بی آر جی نے اپنی کاروائیوں کا دائرہ سبی سے نصیر آباد تک پھیلا دیا اس ردعمل میں بی آرجی کے ریجنل کمانڈر پرویز ڈومکی کی رہائش گاہ پر حملہ ہوا جس میں پرویز ڈومکی اپنی والدہ کے ساتھ بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے۔ پرویز ڈومکی کی شہادت نے کئی سوال کھڑے کئے، ہماری معلومات اور تحقیق کے مطابق پرویز ڈومکی ایک مخفی گوریلا تھے جو شہری نیٹورک کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے اور شہادت سے پہلے ان کی شناسائی صرف ایک بگٹی کمانڈر کے ساتھ تھی۔ جو براہمدغ بگٹی کا خاص بندہ ہے جس کی معلومات پر ریاض گل بگٹی کی ہدایات پر فورسز نے پرویز ڈومکی کو شہید کیا۔ واضح رہے کہ ریاض گل بگٹی کے بیٹے کو فورسز نے چھ ماہ قبل نصیر آباد سے مسلح حالت میں گرفتار کیا تھا جس کو ایک ماہ کے اندر رہا کردیا گیا ۔ حالیہ دنوں میں جب نصیر آباد میں اوچ پاور پلانٹ سے پنجاب جانے والے بجلی کے کھمبوں اور گیس پائپ لائنوں پر دھماکے ہونے شروع ہوئے تو براہمدغ بگٹی کے ہاں بے چینی اور تشویش پائی گئی اور اپنے زیر اثر لوگوں پر گرجے برسے کہ کیوں ان تنصیبات پر حملے ہورہے ہیں، تم لوگ کیا کررہے ہو؟ پتہ کرو یہ کون کروا رہا ہے جس کے بعد براہمدغ بگٹی اور ان کے دوستوں نے ان کا الزام ایک سینئیر بگٹی کمانڈر رحیمو بگٹی پر عائد کرتے ہوئے ان کے دور کے رشتہ داروں کو اپنے بندوں کے ہاتھوں اغواء کرنا شروع کردیا جن پر الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ رحیمو بگٹی سے رابطے میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق سوئی شہر میں موجود ایک شحص صابر کلپر بگٹی کو براہمدغ بگٹی کے کمانڈر کا پیغام آتا ہے کہ آپ کیمپ آکر پیش ہوجائیں، آپ پر رحیمو بگٹی سے رابطے کا الزام ہے صابر کے پیش ہونے سے انکار پر ایک ہفتے بعد فورسز اہلکار صابر کو اٹھاکر لیجاتے ہیں جو تاحال لاپتہ ہے۔ اس دوران رحیمو بگٹی کو پہلے مارنے کی پوری کوشش کی گئی جو خوش قسمتی سے بچ گئے، مارنے میں ناکام ہونے کے بعد رحیمو کو خریدنے کی بھی پوری کوشش کی گئی۔ اب تک رحیمو بگٹی سے رابطے کے الزام میں بیس سے زائد افراد کو اغوا کیا جا چُکا ہے جن میں اکثر جرم ثابت نہ ہونے پر رہا ہوئے ہیں، ان سب پر بس ایک ہی الزام تھا کہ وہ براہمدغ بگٹی کے منحرف کمانڈر رحیمو بگٹی سے رابطے میں ہیں اور ان کا تعلق رحیمو بگٹی کے علاوہ بی آرجی سے ہیں اسی بنیاد پر یہ افراد اغواء ہوئے اور بد ترین تشدد کا نشانہ بھی بنے۔
میں ذاتی طور پر یہ خواہش رکھتا ہوں، مجھے امید ہے اور میں دعا گو ہوں کہ ان تمام اطلاعات اور تحقیقات میں صداقت اور سچائی نہ ہو اور صرف قیاس آرائیاں ہوں لیکن ہمیں تشویش اس بات پر ہے کہ ایک پراسرار خاموشی ہے، سیاسی محاذ ہو کہ مسلح ہر سو ایک آسیب زدہ ماحول ہے۔ ڈاکٹر مالک آتے ہیں اور براہمدغ بگٹی پر الزام لگا کر نکل جاتے ہیں لیکن ان کی اور ان کی پارٹی کی طرف سے مکمل خاموشی ہے۔ حاصل خان بزنجو آکر الزامات لگاتے ہیں تب بھی خاموش رہنے کو ترجیح دی گئی، اس سب سے بڑھ کر یہ کہ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے براہمدغ بگٹی صاحب نے خود ہی کہا کہ وہ ریاست سے مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہیں، جب بی بی سی نے ان سے سوال کیا کہ اس مذاکرات کے مطالبات/ایجنڈا کیا ہوگا تو انہوں نے بلا تکلف فرمایا کہ ہم کمزور لوگ ہیں ہم کیا مطالبات کرسکتے ہیں۔ وہ طاقت ور ہیں وہ آکر بتائیں کہ وہ ہمیں کیا دے سکتے ہیں، اسی انٹرویو میں ان سے آزاد بلوچستان سے دستبرداری کے حوالے سے سوال ہوا تو انہوں نے اس سے بھی انکار نہیں کیا کہ اگر میرے لوگ، بلوچ قوم کہے گی تو میں اس پر سے بھی دستبردار ہونے کے لئے تیار ہوں جو آج کی میری اس تحقیق اور معلومات کو مزید تقویت پہنچاتی ہے۔ یورپ میں بھی بی آر پی مکمل طور پر خاموش ہے اور ہماری معلومات کے مطابق اب بی آر پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے اپنے ممبروں اور کیڈرز کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھا جارہا اور کسی طرح کی بھی سیاسی سرگرمی کے لئے ان کو کسی طرح کی بھی کوئی احکامات موصول نہیں ہورہے جس سے ہمارے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
براہمدغ بگٹی اپنی نجی محفلوں میں اکثر کہتے تھے کہ ریاست سے لڑا نہیں جا سکتا، کوئی ملک ہماری مدد کے لئے تیار نہیں گو کہ ان کی نجی محفلوں کی باتیں مایوسانہ رہی ہیں۔ مایوسی کے اس عالم میں میری براہمدغ بگٹی کی خدمت میں گزارش ہے، نواب صاحب مایوس نہ ہوں، بلوچ ماؤں نے غیرت مند بلوچ جننے کا سلسلہ اب تک ترک نہیں کیا، جنگ اب تیز تر ہوگئی ہے۔ آپ ایک لیڈر ہیں آپ پر نہ صرف یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے بلکہ یہ آپ کے ایمان کا حصہ ہونا چاہیے کہ آپ بلوچ منتشر قوت کو یکجا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے عظیم دادا شہید نواب اکبر خان بگٹی کے راہ سے وفادار رہیں گے۔ یہ جدوجہد پوری قوم کی بقا کی جدوجہد ہے، اس کو مل کر ہی آگے بڑھایا جاسکتا ہے اس جدوجہد سے رو گردانی اور بے وفائی بدنامی کے سوا کسی کو کچھ نہیں دے سکتی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں